کتاب: تبرکات - صفحہ 45
’’کوئی مسلمان مقام ابراہیم کو نہ چوم سکتا ہے،نہ اسے (تبرک کی نیت سے) چھو سکتا ہے، یہ بدعت ہے۔‘‘
(الإیضاح في مناسک الحجّ والعمرۃ، ص 392)
٭ علامہ ابن قیم رحمہ اللہ (751ھ)فرماتے ہیں :
لَقَدْ أَنْکَرَ السَّلَفُ التَّمَسُّحَ بِحَجَرِ الْمَقَامِ الَّذِي أَمَرَ اللّٰہُ أَنْ یُّتَّخَذَ مِنْہُ مُصَلًّی ۔
’’سلف صالحین نے اس مقام کے پتھر کو بوسہ دینے کا ردّ کیا ہے،جس پر نماز پڑھنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم فرمایا ہے۔‘‘
(إغاثۃ اللّہفان : 1/212)
٭ علامہ،محمد بن بیر علی،برکوی رحمہ اللہ (981ھ)بھی لکھتے ہیں :
لَقَدْ أَنْکَرَ السَّلَفُ التَّمَسُّحَ بِحَجَرِ الْمَقَامِ الَّذِي أَمَرَ اللّٰہُ أَنْ یُّتَّخَذَ مِنْہُ مُصَلًّی ۔
’’سلف صالحین نے اس مقام کے پتھر کو بوسہ دینے کا ردّ کیا ہے،جس کے پاس نماز پڑھنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم فرمایا ہے۔‘‘
(زیارۃ القبور، ص 52)
لہٰذا یہ کہنا سراسر خطا ہے کہ مقامِ ابراہیم پر نماز اس لیے پڑھی جاتی ہے کہ وہاں موجود پتھر پر سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے قدم پڑے تھے۔
بعض لوگ اس طرح کی کارروائی سے انبیائے کرام اور اولیائے عظام کی قبروں پر عبادت کے لیے جواز کا دروازہ کھولنا چاہتے ہیں اور باور یہ کرانا چاہتے ہیں کہ انبیا واولیا جہاں جہاں قدم رکھیں ،وہ جگہ اس درجہ مبارک ہو جاتی ہے کہ وہاں عبادت کرنا روا ہو جاتی ہے۔ یوں ان کا منشا پورا ہو جاتا ہے۔بت پرستی کا بنیادی سبب یہی بنا کہ پہلے پہل بزرگوں کی تصاویر بنا کر ان کی یاد کو تازہ کیا۔پھر قبروں سے فیض اور تبرک کی غرض سے ان کی