کتاب: تبرکات - صفحہ 44
الْمَقَامِ رَکْعَتَیْنِ ۔ ’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے،بیت اللہ کے سات چکر لگائے اور مقامِ ابراہیم کے پیچھے دو رکعتیں ادا کیں ۔‘‘ (صحیح البخاري : 1627) مقامِ ابراہیم پر دو رکعتیں ادا کرنے میں سب سے بڑی حکمت یہ ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے،لیکن بعض لوگوں کا اعتقاد کچھ اور ہی ہے۔ ایک صاحب یوں لکھتے ہیں : ’’مقامِ ابراہیم وہ پتھر ہے،جس پر کھڑے ہو کر حضرت خلیل علیہ السلام نے کعبہ کی تعمیر کی۔ ان کے قدم پاک کی برکت سے اس پتھر کا یہ درجہ ہوا ہے کہ دنیا بھر کے حاجی اس کی طرف سر جھکاتے ہیں ۔‘‘ (جاء الحق از احمد یار خان نعیمی بریلوی : 1/373، فتاویٔ رضویہ از احمد رضا خان بریلوی : 21/398) یہ غلو پر مبنی بات ہے، کیونکہ صحابہ کرام وتابعین عظام اور ائمہ دین سے ایسی کوئی بات ثابت نہیں ۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے حجر اسود کو چومتے ہوئے یہ بات بالکل واضح کر دی تھی کہ اس میں کوئی ذاتی برکت نہیں ،لیکن احمد یار خاں بریلوی صاحب اس میں بھی ذاتی برکت کے قائل ہیں ۔ یہی معاملہ انہوں نے حجر اسود کے ساتھ کیا ہے۔کیا ان لوگوں کو سلف صالحین سے زیادہ علم ہے؟ اگر مقامِ ابراہیم میں کوئی ذاتی برکت ہوتی،تو صحابہ و تابعین اور ائمہ دین ضرور اس کے بارے میں ہمیں بتا دیتے۔ سلف صالحین نے تو مقامِ ابراہیم کو چھونے اور بوسہ دینے کو بدعت قرار دیا ہے۔ ٭ حافظ نووی رحمہ اللہ (676ھ)لکھتے ہیں : لَا یُقَبِّلُ مَقَامَ إِبْرَاہِیمَ، وَلَا یَسْتَلِمُہٗ، فَإِنَّہٗ بِدْعَۃٌ ۔