کتاب: تبرکات - صفحہ 42
مَعَ الْـأَسَفِ، إِنَّ بَعْضَ النَّاسِ اتَّخَذُوا مِنَ الْعِبَادَاتِ نَوْعًا مِّنَ التَّبَرُّکِ فَقَطْ؛ مِثْلُ مَا یُشَاہَدُ مِنْ أَنَّ بَعْضَ النَّاسِ یَمْسَحُ الرُّکْنَ الْیَمَانِيَّ، وَیَمْسَحُ بِہٖ وَجْہَ الطِّفْلِ وَصَدْرَہٗ، وَہٰذَا مَعْنَاہُ أَنَّہُمْ جَعَلُوا مَسْحَ الرُّکْنِ الْیَمَانِيِّ مِنْ بَابِ التَّبَرُّکِ لَا التَّعَبُّدِ، وَہٰذَا جَہْلٌ، وَقَدْ قَالَ عُمَرُ فِي الْحَجَرِ : إِنِّي أَعْلَمُ أَنَّکَ حَجَرٌ لَّا تَضُرُّ وَلَا تَنْفَعُ، وَلَوْلَا أَنِّي رَأَیْتُ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُقَبِّلُکَ؛ مَا قَبَّلْتُکَ ۔
’’افسوس کی بات ہے کہ بعض لوگوں نے عبادات کو صرف تبرک کی ایک قسم بنا لیا ہے،جیسے دیکھا گیا ہے کہ بعض لوگ رکن یمانی کو چھوتے ہیں اور پھر بچوں کے چہرے اور سینے پر ہاتھ پھیرتے ہیں ۔ اس کا معنی یہ ہے کہ انہوں نے رکن یمانی کو عبادت کی بجائے تبرک کے لیے چھونا شروع کر دیا ہے۔یہ جہالت ہے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے حجر اسود کے بارے میں فرمایا تھا : میں جانتا ہوں کہ تُو ایک پتھر ہے، نہ تُو نفع دیتا ہے نہ نقصان۔ اگر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تجھے چومتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا، تو میں تجھے نہ چومتا۔‘‘
(القَول المُفید علی کتاب التّوحید : 1/181)
فائدہ :
سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ انہوں نے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ کعبۃ اللہ کا طواف کیا۔ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کعبۃ اللہ کے چاروں کونوں کو ہاتھ سے چھوتے تھے۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے ان سے فرمایا : آپ کعبۃ اللہ کے (دو شامی) کونوں کو کیوں