کتاب: تبرکات - صفحہ 40
دیگر اشیا کو بوسہ دینے کی شرعی حیثیت : سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے اس فرمان سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ صرف اسی چیز کو بوسہ دینا مشروع اور جائز ہوتا ہے۔ جس کے لیے شریعت ِاسلامیہ نے اجازت دی ہو۔جن چیزوں کو بوسہ دینے کی شریعت میں گنجائش نہ ہو،انہیں حجر اسود پر قیاس کرنا بدعت ہے،جیسا کہ : ٭ حافظ ابن حجر،عسقلانی رحمہ اللہ (852ھ)فرماتے ہیں : قَالَ شَیْخُنَا فِي شَرْحِ التِّرْمِذِيِّ : فِیْہِ کَرَاھِیَۃُ تَقْبِیلِ مَا لَمْ یَرِدِ الشَّرْعُ بِتَقْبِیلِہٖ ۔ ’’ہمارے شیخ(ابو الفضل بن الحسین)جامع ترمذی کی شرح میں فرماتے ہیں : سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے اس فرمان سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ جس چیز کو چومنے کے بارے میں شریعت کی کوئی دلیل وارد نہ ہوئی ہو،اسے چومنا مکروہ ہے۔‘‘ (فتح الباري : 3/463) ایک جھوٹی روایت : ایک روایت میں ہے کہ جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے یہ فرمایا : إِنِّي أَعْلَمُ أَنَّکَ حَجَرٌ، لَا تَضُرُّ وَلَا تَنْفَعُ ۔ ’’بلاشبہ میں جانتا ہوں کہ تُو ایک پتھر ہے۔تُو نہ نفع دیتا ہے نہ نقصان۔‘‘ تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے جواب میں فرمایا : بَلٰی، یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ، إِنَّہٗ یَضُرُّ وَیَنْفَعُ ۔ ’’کیوں نہیں ،امیر المومنین! یہ تو نفع و نقصان دیتا ہے۔‘‘ (المستدرک للحاکم : 1/457، أخبار مکّۃ للأزرقي : 1/323، شعب الإیمان للبیھقي : 3749) یہ جھوٹی روایت ہے۔ اس کو گھڑنے والا ابو ہارون عبدی ’’متروک وکذاب‘‘ ہے۔