کتاب: تبرکات - صفحہ 4
’’تبرک،برکۃ مادہ سے بابِ تفعل کا مصدر ہے۔بھلائی کی کثرت اور اس کے دوام کو برکت کہتے ہیں ۔لفظ ِ برکت، بِرکۃ سے ماخوذ ہے۔ جو پانی کے تالاب کو کہا جاتا ہے۔ تالاب کا بہتے ہوئے پانی سے دو طرح کا فرق ہوتا ہے؛ ایک زیادہ ہونے سے اور دوسرے ٹھہرنے سے۔تبرک برکت طلب کرنے کا نام ہے۔برکت کو طلب کرنا دو طرح سے ہو سکتا ہے؛ایک تو کسی شرعی معلوم امر سے،جیسے قرآنِ کریم سے برکت حاصل کرنا،جیسا کہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے : ﴿کِتَابٌ اَنْزَلْنَاہُ اِلَیْکَ مُبَارَکٌ﴾ (جو کتاب ہم نے آپ کی طرف نازل کی ہے،مبارک ہے)۔ یہ اس کتاب کی برکت ہے کہ جو اسے اپنا لیتا ہے،اسے فتح حاصل ہوتی ہے۔اس کتاب کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے بہت سے لوگوں کو شرک سے بچایا۔یہ بھی قرآنِ کریم کی برکت ہے کہ ایک حرف کے بدلے میں دس نیکیاں ملتی ہیں ۔ اس سے انسان کے وقت اور محنت دونوں کی بچت ہوتی ہے۔یوں قرآنِ مجید کی اور بھی بہت سی برکات ہیں ۔ برکت کی دوسری صورت یہ ہوتی ہے کہ کسی حسی معلوم چیز سے برکت حاصل کی جائے، جیسے تعلیم،دعا وغیرہ سے۔کوئی شخص اپنے علم اور نیکی کی طرف دعوت کی وجہ سے متبرک ہے،تو اس سے برکت حاصل ہو گی،کیونکہ ہم اس سے بہت زیادہ بھلائی حاصل کر سکیں گے۔(مثلاًجب سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے ہار گم ہونے پرتیمم کا حکم نازل ہوا،تو)سیدنا اُسید بن حضیر رضی اللہ عنہ نے اسی بنا پرکہا تھا : اے ابوبکر رضی اللہ عنہ کی آل! یہ کوئی تمہاری پہلی برکت نہیں ۔اللہ تعالیٰ بعض لوگوں کے ہاتھ پر ان امورِ خیر کو جاری کر دیتا ہے،جو دوسروں کے ہاتھ پر جاری نہیں ہوتے۔لیکن