کتاب: تبرکات - صفحہ 39
٭ ڈاکٹر عبد اللہ بن عبد العزیز بن حماد، ابن جبرین رحمہ اللہ لکھتے ہیں : قَوْلُ عُمَرَ ھٰذَا صَرِیحٌ فِي أَنَّ تَقْبِیلَ الْحَجَرِ الْـأَسْوَدِ إِنَّمَا ہُوَ اتِّبَاعٌ لِّلنَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَالْمُسْلِمُ یَفْعَلُہٗ تَعَبُّدًا لِّلّٰہِ تَعَالٰی، وَاقْتِدَائً بِخَیْرِ الْبَرِیَّۃِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَلَیْسَ مِنْ بَابِ التَّبَرُّکِ فِي شَيْئٍ ۔ ’’سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا یہ فرمان اس بات میں صریح ہے کہ حجر اسود کو چومنا صرف نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اتباع کے لیے ہے۔مسلمان صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت اور خیر البشر صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی میں ایسا کرتا ہے۔اس کا تبرک کے مسئلے سے کسی قسم کا کوئی تعلق نہیں ۔‘‘ (تسھیل العقیدۃ الإسلامیّۃ، ص 311) ٭ شیخ،صالح بن عبد العزیز،آل الشیخ فرماتے ہیں : کَذٰلِکَ الْحَجَرُ الْـأَسْوَدُ ہُوَ حَجَرٌ مُّبَارَکٌ، وَلٰکِنَّ بَرَکَتَہٗ لِأَجْلِ الْعِبَادَۃِ، یَعْنِي أَنَّ مَنِ اسْتَلَمَہٗ تَعَبُّدًا مُّطِیعًا لِّلنَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِي اسْتِلَامِہٖ لَہٗ، وَفِي تَقْبِیلِہٖ، فَإِنَّہٗ یَنَالُہٗ بِہٖ بَرَکَۃَ الِاتِّبَاعِ ۔ ’’اسی طرح حجر اسود مبارک پتھر ہے،لیکن اس کی برکت عبادت کی وجہ سے ہے، یعنی جو اسے عبادت کی نیت سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی میں چومے گا،وہ اس عمل کی وجہ سے اتباع کی برکت حاصل کر لے گا۔‘‘ (التّمہید في شرح کتاب التّوحید، ص 125-124)