کتاب: تبرکات - صفحہ 383
سند ’’ضعیف‘‘ ہے۔ ٭ امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں : فِي إِسْنَادِہٖ نَظَرٌ ۔ ’’اس کی سند محل نظر ہے ۔ ‘‘ ٭ نیز فرماتے ہیں : إِسْنَادُہٗ مَجْھُولٌ ۔ ’’اس کی سند مجہول ہے۔‘‘ (التّاریخ الکبیر : 6/160) بریہ بن عمر بن سفینہ جمہور کے نزدیک ’’ضعیف‘‘ ہے ۔ ٭ امام عقیلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : لَا یُتَابَعُ عَلٰی حَدِیثِہٖ ۔ ’’ اس کی حدیث پر متابعت نہیں کی گئی۔‘‘ (الضّعفاء الکبیر : 1/167) حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے اس کو ’’لین‘‘ کہا ہے ۔ (الکاشِف : 1/99) امام ابنِ حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں : یُخَالِفُ الثِّقَاتَ فِي الرِّوَایَاتِ، فَلَا یَحِلُّ الْاِحْتِجَاجُ بِخَبَرِہٖ بِحَالٍ ۔ ’’یہ روایات میں ثقہ راویوں کی مخالفت کرتا ہے۔ کسی حال میں بھی اس کی روایت سے حجت لینا جائز نہیں ۔ ‘‘ (کتاب المَجروحین : 1/111)