کتاب: تبرکات - صفحہ 381
’’محدثین کے نزدیک مضبوط راوی نہ تھا۔‘‘ (الاستغناء : 2/827) ٭ امام ابن حبان رحمہ اللہ نے ’’الثقات : ۶/۳۷۸‘‘ میں ذکر کیا ہے۔ 2. کیسان مولیٰ عبداللہ بن الزبیر کے حالات نہیں ملے۔ ٭ سیدہ اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا کی روایت میں ہے : لَا تَمَسَّکَ النَّارُ، وَمَسَحَ عَلٰی رَأْسِہٖ ۔ ’’ نبی ٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کے سر پر ہاتھ پھیرا اور فرمایا کہ آپ کو آگ ہرگز نہ چھوئے گی ۔ (سنن الدّارقطني : 1/228) سند سخت ’’ضعیف‘‘ ہے۔ 1. محمد بن حمید رازی ’’ضعیف وکذاب‘‘ ہے۔ 2. علی بن مجاہد ’’ضعیف ومتروک‘‘ ہے۔ ٭ حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے اسے کذاب قرار دیا ہے۔ (المُغني في الضّعفاء : 2/905) ٭ حافظ ابنِ حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں : مَتْرُوکٌ، وَلَیْسَ فِي شُیُوخِ أَحْمَدَ أَضْعَفُ مِنْہُ ۔ ’’یہ متروک ہے۔ امام احمد رحمہ اللہ کے اساتذہ میں اس سے بڑھ کر ضعیف کوئی نہیں ۔‘‘ (تقریب التّہذیب : 4790) امام یحییٰ بن ضُریس رحمہ اللہ نے اسے جھوٹا قرار دیا ہے۔ (الجرح والتّعدیل لابن أبي حاتم : 6/205، وسندہٗ حسنٌ)