کتاب: تبرکات - صفحہ 380
٭ ایک روایت میں ہے : لَعَلَّکَ شَرِبْتَہٗ؟ قَالَ : نَعَمْ، قَالَ : وَلِمَ شَرِبْتَ الدَّمَ؟ وَیْلٌ لِلنَّاسِ مِنْکَ، وَوَیْلٌ لَکَ مِنَ النَّاسِ ۔ ’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: شاید آپ نے پی لیا ہے ۔ صحابی نے عرض کیا : جی ہاں ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : آپ نے خون کیوں پیا ؟ نیز فرمایا : لوگ آپ سے محفوظ ہو گئے اور آپ لوگوں سے محفوظ رہیں گے۔‘‘ اس کی سند میں بھی ہنید بن قاسم ’’مجہول‘‘ ہے ۔ ٭ ایک روایت میں ہے : لَا تَمَسَّکَ النَّارُ إِلَّا قَسْمَ الْیَمِینِ ۔ ’’ آپ کو آگ صرف قسم پوری کرنے کے لیے چھوئے گی ۔ ‘‘ (حِلیۃ الأولیاء لأبي نُعیم : 1/330، جُزء ابن الغِطریف : 65، تاریخ ابن عَساکر : 20/233، 28/162، الإصابۃ لابن حجَر : 4/93) سند سخت ’’ ضعیف‘‘ ہے۔ 1. سعد بن زیاد ابو عاصم مولیٰ سلیمان بن علی ضعیف ہے۔ ٭ امام ابو حاتم رحمہ اللہ فرماتے ہیں : یُکْتَبُ حَدِیثُہٗ، وَلَیْسَ بِالْمَتِینِ ۔ ’’اس کی حدیث لکھی جائے گی، یہ مضبوط راوی نہیں ہے۔‘‘ (الجرح والتّعدیل لابن أبي حاتم : 4/83) ٭ حافظ ابن عبد البر رحمہ اللہ فرماتے ہیں : لَیْسَ بِالْمَتِینِ عِنْدَھُمْ ۔