کتاب: تبرکات - صفحہ 38
النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَصَخْرَۃِ بَیْتِ الْمَقْدِسِ وَغَیْرِہَا مِنَ الْبُقَعِ الْفَاضِلَۃِ، وَأَمَّا اسْتِلَامُ الْحَجَرِ الْـأَسْوَدِ وَتَقْبِیلُہٗ، وَاسْتِلَامُ الرُّکْنِ الْیَمَانِيِّ مِنَ الْکَعْبَۃِ الْمُشَرَّفَۃِ؛ فَہٰذَا عُبُودِیَّۃٌ لِّلّٰہِ وَتَعْظِیمٌ لِّلّٰہِ وَخُضُوعٌ لِّعَظَمَتِہٖ، فَہُوَ رُوحُ التَّعَبُّدِ، فَہٰذَا تَعْظِیمٌ لِّلْخَالِقِ وَتَعَبُّدٌ لَّہٗ، وَذٰلِکَ تَعْظِیمٌ لِّلْمَخْلُوقِ وَتَأَلُّہٌ لَّہٗ، فَالْفَرْقُ بَیْنَ الْـأَمْرَیْنِ کَالْفَرْقِ بَیْنَ الدُّعَائِ لِلّٰہِ الَّذِي ہُوَ إِخْلَاصٌ وَّتَوْحِیدٌ، وَالدُّعَائِ لِلْمَخْلُوقِ الَّذِي ہُوَ شِرْکٌ وَّتَنْدِیدٌ ۔ ’’علمائے کرام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ کسی بھی شجر و حجر اور جگہ و مقام وغیرہ سے تبرک لینا جائز نہیں ،کیونکہ یہ تبرک میں غلو ہے اور یہ تبرک بالتدریج ان چیزوں کو پکارنے اور ان کی عبادت کرنے کی طرف لے جاتا ہے جو کہ شرکِ اکبر ہے۔ یہ اصول ہر چیز کے لیے عام ہے،حتی کہ مقامِ ابراہیم،حجرۂ نبوی، بیت المقدس کے پتھرجیسی فضیلت والی جگہوں کے لیے بھی۔رہا حجر اسود کو چھونا اور چومنا، نیز کعبہ مشرفہ کے رکن یمانی کو چھونا،تو یہ اللہ تعالیٰ کی عبادت و تعظیم ہے اور اس کی عظمت کے سامنے جھک جانے کا نام ہے۔یہی عبادت کی روح ہے۔ یہ خالق کی تعظیم و عبادت ہے،جبکہ دیگر پتھروں اور مقامات کو چھونا مخلوق کی تعظیم و عبادت ہے۔ دونوں کے درمیان فرق وہی ہے جو خالق اور مخلوق کو پکارنے کے درمیان ہے۔ اللہ تعالیٰ کو پکارنا اخلاص و توحید ہے،جبکہ مخلوق کو (مافوق الاسباب)پکارنا شرک اور ساجھی بنانا ہے۔‘‘ (القول السّدید، ص 51)