کتاب: تبرکات - صفحہ 379
دُور جا کر اس خون کو پی لیا۔ پھر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا : آپ نے خون کا کیا کیا ؟ میں نے عرض کی : میں نے ویسے ہی کیا ہے، جیسے آپ نے حکم دیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : میرے خیال میں آپ نے اسے پی لیا ہے۔ میں نے عرض کیا : جی ہاں ! فرمایا : اب آپ سے میرا کوئی میرا امتی بغض وکینہ سے نہیں ملے گا۔
(الآحاد والمَثاني لابن أبي عاصم : 578، مسند أبي یعلی [المَطالب لابن حجَر : 3821]، مُسند البزّار : 2210، المُستدرک للحاکم : 6343، السّنن الکبریٰ للبیہقي : 7/67)
سند ’’ضعیف‘‘ ہے۔ ہنید بن قاسم بن عبد الرحمن کو صرف امام ابن حبان رحمہ اللہ نے ’’الثقات‘‘ (۵/۵۱۵) میں ذکر کیا ہے، لہٰذا یہ مجہول الحال ہے۔
٭ حافظ ابن دقیق العید رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
لَیْسَ فِي إِسْنَادِ الْبَزّارِ مَنْ یُحْتَاجُ إِلَی الْکَشْفِ عَنْ حَالِہٖ إلاَّ ھُنَیْدُ ۔
’’مسند بزار کی سند میں صرف ہنید کے حالات ہی محتاج تحقیق ہیں ۔‘‘
(الإمام في مَعرِفۃ أحادیث الأحکام : 3/385)
٭ حافظ ہیثمی رحمہ اللہ نے ’’مجہول‘‘ کہا ہے۔
(مَجمع الزّوائد : 1/28)
٭ حافظ ابن ملقن رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ہَنِیدٌ لَا یُعْلَمُ لَہٗ حَالٌ ۔
’’ہنید کی حالت معلوم نہیں ۔‘‘
(البدر المُنیر : 1/476)