کتاب: تبرکات - صفحہ 37
یَظُنُّونَ أَنَّ بِہٖ بَرَکَۃٌ حِسِّیَّۃٌ، وَلِذٰلِکَ إِذَا اسْتَلَمَہٗ بَعْضُ ہٰؤُلَائِ؛ مَسَحَ عَلٰی جَمِیعِ بَدَنِہٖ تَبَرُّکًا بِذٰلِکَ ۔
’’کوئی بھی پتھر ہو،خواہ بیت المقدس میں موجود صخرہ ہو،اس سے تبرک نہیں لیا جا سکتا۔ یہی معاملہ حجر اسود کا ہے،اس سے بھی برکت حاصل نہیں کی جا سکتی۔ اسے چھو کر اور اس کو بوسہ دے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی میں صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کی جاتی ہے،اسی سے ثواب کی صورت میں برکت حاصل ہوتی ہے۔ اسی لیے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا : میں جانتا ہوں کہ تُو ایک پتھر ہے،تُو نہ نفع دے سکتا ہے نہ نقصان۔اگر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تجھے بوسہ دیتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا، تو میں تجھے بوسہ نہ دیتا۔چنانچہ حجر اسود کو چومنا صرف ایک عبادت ہے۔ عام لوگوں کا اعتقاد اس کے خلاف ہے،وہ سمجھتے ہیں کہ اس پتھر میں حسی برکت ہے، یہی وجہ ہے کہ جب وہ اسے چھوتے ہیں تو تبرک کی نیت سے اپنے سارے جسم پر ہاتھ پھیرتے ہیں ۔‘‘
(القول المفید علی کتاب التّوحید : 1/196)
٭ علامہ،عبد الرحمن بن ناصر،سعدی رحمہ اللہ (1376ھ) فرماتے ہیں :
إِنَّ الْعُلَمَائَ اتَّفَقُوا عَلٰی أَنَّہٗ لَا یُشْرَعُ التَّبَرُّکُ بِشَيْئٍ مِّنَ الْـأَشْجَارِ وَالْـأَحْجَارِ وَالْبُقَعِ وَالْمَشَاہِدِ وَغَیْرِہَا، فَإِنَّ ہٰذَا التَّبَرُّکَ غُلُوٌّ فِیہَا، وَذٰلِکَ یَتَدَرَّجُ بِہٖ إِلٰی دُعَائِہَا وَعِبَادَتِہَا، وَہٰذَا ہُوَ الشِّرْکُ الْـأَکْبَرُ، ۔۔۔، وَہٰذَا عَامٌّ فِي کُلِّ شَيْئٍ، حَتّٰی مَقَامِ إِبْرَاہِیمَ وَحُجْرَۃِ