کتاب: تبرکات - صفحہ 36
وَنَحْوِہَا؟ وَفِي ذٰلِکَ عِبْرَۃٌ لِّلْقُبُورِیَّۃِ عَامَّۃً، وَالدُّیُوبَنْدِیَّۃِ التَّبْلِیغِیَّۃِ خَاصَّۃً ! فَلَوْ کَانَ التَّبَرُّکُ بِہٰذِہِ الْـأَشْیَائِ جَائِزًا لَّکَانَ الْحَجَرُ الْـأَسْوَدُ أَوْلٰی وَأَحْرٰی وَأَلْیَقُ، لِأَنَّہٗ مَسَّتْہُ أَیْدِي الْـأَنْبِیَائِ وَالْمُرْسَلِینَ، وَالصَّحَابَۃِ وَالتَّابِعِینَ، وَالْـأَوْلِیَائِ وَالصَّالِحِینَ۔ ’’جب حجر اسود کو تبرک اور شفا کے حصول کی خاطر چومنا اور چھونا جائز نہیں ،تو قبروں ، ان کے پتھروں ،درختوں ،کپڑوں ،تیل،شمعوں وغیرہ سے تبرک اور شفا کا حصول کیسے جائز ہوا؟اس میں قبرپرستوں کے لیے عموماً اور تبلیغی دیوبندیوں کے لیے خصوصاً عبرت ہے۔اگر قبروں اور ان کے متعلقات سے تبرک جائز ہے، تو حجر اسود اس کے زیادہ لائق ہے،کیونکہ اسے انبیا و مرسلین،صحابہ و تابعین اور اولیا وصالحین کے ہاتھوں نے چھوا ہوا ہے۔‘‘ (جُہود علماء الحنفیّۃ في إبطال العقائد القُبوریّۃ :2 / 659-652) ٭ شیخ،محمد بن صالح،عثیمین رحمہ اللہ (1421ھ)فرماتے ہیں : أَيُّ حَجَرٍ کَانَ حَتّٰی الصَّخْرَۃِ الَّتِي فِي بَیْتِ الْمَقْدِسِ، فَلاَ یُتَبَرَّکُ بِہَا، وَکَذَا الْحَجَرُ الْـأَسْوَدُ لَا یُتَبَرَّکُ بِہٖ، وَإِنَّمَا یُتَعَبَّدُ لِلّٰہِ بِمَسْحِہٖ وَتَقْبِیلِہِ اتِّبَاعًا لِّلرَّسُولِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَبِذٰلِکَ تَحْصُلُ بَرَکَۃُ الثَّوَابِ، وَلِہٰذَا قَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللّٰہُ عَنْہُ : إِنِي لَـأَعْلَمُ أَنَّکَ حَجَرٌ لَّا تَضُرُّ وَلَا تَنْفَعُ، وَلَوْلاَ أَنِّي رَأَیْتُ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُقَبِّلُکَ؛ مَا قَبَّلْتُکَ، فَتَقْبِیلُہٗ عِبَادَۃٌ مَّحْضَۃٌ، خِلَافًا لِّلْعَامَّۃِ،