کتاب: تبرکات - صفحہ 354
اَلْـأَبْدَالُ یَکُونُونَ بِالشَّامِ، وَہُمْ أَرْبَعُونَ رَجُلًا، کُلَّمَا مَاتَ رَجُلٌ أَبْدَلَ اللّٰہُ مَکَانَہٗ رَجُلًا، یُسْقٰی بِہِمُ الْغَیْثُ، وَیُنْتَصَرُ بِہِمْ عَلَی الْـأَعْدَائِ، وَیُصْرَفُ عَنْ أَہْلِ الشَّامِ بِہِمِ الْعَذَابُ ۔ ’’ابدال شام میں ہیں ۔ وہ چالیس مرد ہیں ۔ جو ان میں سے فوت ہو جاتا ہے ، اللہ تعالیٰ اس کی جگہ دوسرا بدل دیتا ہے۔ ان کی وجہ سے آپ کو بارش دی جاتی ہے اور دشمنوں کے مقابلہ میں امداد دی جاتی ہے، نیز اہل شام سے انہی کے سبب عذاب دور کیا جاتا ہے۔‘‘ (مسند الإمام أحمد : 1/112) سند انقطاع کی وجہ سے ’’ضعیف‘‘ ہے۔ شریح بن عبید کا علی رضی اللہ عنہ سے سماع و لقا نہیں ۔ ٭ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ہُوَ حَدِیثٌ مُنْقَطِعٌ، لَیْسَ بِثَابِتٍ ۔ ’’یہ حدیث منقطع ہے، ثابت نہیں ہے۔‘‘ (الفُرقان بین أولیاء الرَّحمٰن وأولیاء الشّیطان، ص 101) ٭ علامہ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں : لَا یَصِحُّ أَیْضًا، فَإِنَّہٗ مُنْقَطِعٌ ۔ ’’یہ روایت بھی ثابت نہیں ، کیونکہ یہ منقطع ہے۔‘‘ (المَنار المُنیف، ص 136) خوب یاد رہے کہ منقطع حدیث ’’ضعیف‘‘ ہوتی ہے۔ سند کا متصل ہونا صحت ِ حدیث کے لیے ضروری اور بنیادی شرط ہے۔