کتاب: تبرکات - صفحہ 35
الْوُقُوعِ فِي الشِّرْکِ، فَلِہٰذَا نَبَّہَ النَّاسَ بِأَنَّہٗ لَا یَضُرُّ وَلَا یَنْفَعُ، وَہٰذَا دَلِیلٌ عَلٰی أَنَّ الصَّحَابَۃَ کَانُوا یَہْتَمُّونَ بِأَمْرِ التَّوْحِیدِ وَحِمَایَۃِ حِمَاۃٍ وَسَدِّ ذَرَائِعِ الشِّرْکِ ۔ ’’سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا یہ فرمان اس بات کی دلیل ہے کہ حجر اسود نفع و نقصان نہیں دیتا، نیز باقی پتھروں کو چھوڑ کر اسے چومنا صرف اللہ عزوجل کی عبادت کے لیے ہے، نہ کہ اس سے برکت حاصل کرنے کی نیت سے۔(جب حجر اسود کا یہ معاملہ ہے، تو اب)قبروں کے پتھروں اور درختوں کے بارے میں کیا خیال ہے؟ حجر اسود کو چومنے پر دیگر حجر وشجر کو قیاس نہیں کیا جا سکتا۔سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے کلام میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ حجر اسود کو اگر خوف،لالچ اور تعظیم کی نیت سے چوما جائے، تواس صورت میں شرک میں واقع ہونے کا خدشہ پیدا ہو جائے گا، اسی لیے انہوں نے لوگوں کو اس بات کی وضاحت فرما دی کہ یہ نفع و نقصان نہیں دیتا۔ یہ واقعہ دلیل ہے کہ صحابہ کرام توحیدکے حکم، عقیدے کی حفاظت اور شرک کے اسباب کو ختم کرنے کا بہت اہتمام کرتے تھے۔‘‘ (جُہُود علماء الحنفیّۃ في إبطال عقائد القبوریّۃ :2 / 658-656) ٭ نیز فرماتے ہیں : إِذًا لَّا یَجُوزُ تَقْبِیلُ الْحَجَرِ الْـأَسْوَدِ، وَاسْتِلَامُہٗ وَالتَّمَسُّحُ بِہٖ لأَِجْلِ التَّبَرُّکِ بِہٖ وَالِاسْتِشْفَائِ بِہٖ، فَکَیْفَ یَجُوزُ التَّبَرُّکُ بِالْقُبُورِ، وَأَحْجَارِہَا، وَأَشْجَارِہَا، وَخِرَقِہَا، وَزُیُوتِہَا، وَشُمُوعِہَا،