کتاب: تبرکات - صفحہ 349
الْخَاصَّۃَ الَّتِي یَزْعُمُونَ، وَإِلَّا فَالْمُؤْمِنُونَ الْمُتَّقُونَ أَوْلِیَائُ اللّٰہِ ۔ ’’ابدال کے متعلق احادیث پر محدثین کی جرح ہے،اگر ہم انہیں صحیح بھی مان لیں ، تب بھی اللہ تعالیٰ نے ابدال کی نشانی بیان نہیں کی، جس سے ان کا تعین اور معرفت ہو سکے، لہٰذا کسی بھی شخص کو ابدال میں سے شمار تب تک نہیں کیا جاتا، جب تک اس کو ’’خاص ولی‘‘ نہ سمجھ لیا جائے، جیسا کہ اہل بدعت کا نظریہ ہے، ورنہ تو تمام متقی مومن اللہ کے ولی ہیں ۔‘‘ (الإنصاف في حقیقۃ الأولیاء وما لھم من الکرامات والألطاف، ص 59) اتنی وضاحت کے بعد ابدال کے متعلق مروی احادیث پر مختصر تبصرہ پیش خدمت ہے: 1. سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : خِیَارُ أُمَّتِي فِي کُلِّ قَرْنٍ خَمْسُمِائَۃٍ، وَالْـأَبْدَالُ أَرْبَعُونَ، فَلَا الْخَمْسُمِائَۃٍ یَنْقُصُونَ وَلَا الْـأَرْبَعُونَ، کُلَّمَا مَاتَ رَجُلٌ أَبْدَلَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ مِنَ الْخَمْسِمِائَۃِ مَکَانَہٗ، وَأَدْخَلَ مِنَ الْـأَرْبَعِینَ مَکَانَہُمْ ۔ ’’میری امت کے ہر زمانہ میں پانچ سو خیار (پسندیدہ لوگ) ہوں گے اور چالیس ابدال۔ ان دونوں میں کمی نہ ہو گی۔ ان میں سے جو فوت ہو گا ، ان پانچ سو میں سے اللہ اس کی جگہ دوسرے شخص کو ان چالیس میں داخل کر دے گا۔‘‘ (حلیۃ الأولیاء لأبي نُعَیْم : 1/8، تاریخ ابن عساکر : 1/302) روایت باطل ہے ۔ 1. سعید بن ابی زیدون کے حالات نہیں ملے۔