کتاب: تبرکات - صفحہ 348
٭ علامہ ابن قیم رحمہ اللہ (۷۵۱ھ) فرماتے ہیں : أَحَادِیثُ الْـأَبْدَالِ وَالْـأَقْطَابِ وَالْـأَغْوَاثِ وَالنُّقَبَائِ وَالنُّجَبَائِ وَالْـأَوْتَادِ کُلُّہَا بَاطِلَۃٌ عَلٰی رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ۔ ’’ابدال، اقطاب، اغواث، نقباء، نجباء اور اوتاد کے بارے میں تمام کی تمام احادیث خود گھڑ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذمے لگائی گئی ہیں ۔‘‘ (المَنار المُنیف، ص 136) ٭ علامہ ابن رجب رحمہ اللہ (۷۹۵ھ) فرماتے ہیں : قَدْ رُوِیَتْ أَحَادِیثُ کَثِیرَۃٌ فِي الْـأَبْدَالِ لَا تَخْلُو مِنْ ضَعْفٍ فِي أَسَانِیدِہَا وَبَعْضُھَا مَوْضُوعٌ ۔ ’’ابدال کے بارے میں بہت ساری احادیث مروی ہیں ، کوئی سند ضعف سے خالی نہیں ، بعض سندیں تو من گھڑت ہیں ۔‘‘ (فضائل الشّام : 3/219) ٭ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (۸۵۲ھ) فرماتے ہیں : اَلْـأَبْدَالُ وَرَدَتْ فِي عِدَّۃِ أَخْبَارٍ مِنْہَا مَا یَصِحُّ ۔ ’’ابدال کے متعلق بہت ساری روایات آتی ہیں ، ان میں کوئی بھی ثابت نہیں ۔‘‘ (فیض القدیر للمَناوي : 3/169، التّنویر شرح الجامع الصّغیر للصنعاني : 4/481) ٭ علامہ امیر صنعانی رحمہ اللہ (۱۱۸۲ھ) فرماتے ہیں : فِي صِحَّتِہَا عِنْدَ أَئِمَّۃِ الْحَدِیثِ مَقَالٌ، وَإِنْ سَلَّمْنَا صِحَّۃَ الْـأَحَادِیثِ فِي ذٰلِکَ فَإِنَّہٗ لَمْ یَجْعَلِ اللّٰہُ لَہُمْ عَلَامَۃً یُعْرَفُونَ بِہَا بِأَعْیَانِہِمُ اتِّفَاقًا، فَلَا یُعْرَفُ أَنَّ الشَّخْصَ مِنَ الْـأَبْدَالِ حَتّٰی یُعْتَقَدَ أَنَّہٗ وَلِيُّ اللّٰہِ الْوِلَایَۃَ