کتاب: تبرکات - صفحہ 345
وغیرہ کی صورت میں جو بت قائم کیے ہیں ،ان سب کو منہدم کرنا اور ان کے آثار ختم کرنا ضروری ہے،جیسا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو بلند قبروں کو گرانے اور زمین کے ساتھ برابر کرنے کا حکم فرمایا۔‘‘
(إغاثۃ اللَّہفان من مَصاید الشّیطان : 1/209)
11. علامہ ابن الحاج رحمہ اللہ (737ھ)لکھتے ہیں :
ہٰذَا إِجْمَاعٌ مِّنْ ہٰؤُلَائِ الْعُلَمَائِ الْمُتَأَخِّرِینَ، فَکَیْفَ یَجُوزُ الْبِنَائُ فِیہَا؟ فَعَلٰی ہَذَا؛ فَکُلُّ مَنْ فَعَلَ ذٰلِکَ، فَقَدْ خَالَفَہُمْ ۔
’’یہ متاخرین علما کی طرف سے پختہ اور بلند قبروں کو گرانے پر اجماع ہے۔ اس صورت میں قبروں پر قبے وغیرہ بنانا کیسے جائز ہو گا؟اس لیے جو بھی ایسا کرے گا، وہ ان اہل علم کا مخالف ہو گا۔‘‘
(المَدخل : 1/182، وفي نسخۃ : 1/253)
12. احناف کی معتبر کتاب میں لکھا ہے :
یُکْرَہُ أَنْ یُّبْنٰی عَلَی الْقَبْرِ مَسْجِدٌ أَوْ غَیْرُہٗ، کَذَا فِي السِّرَاجِ الْوَہَّاجِ، وَیُکْرَہُ عِنْدَ الْقَبْرِ مَا لَمْ یُعْہَدْ مِنَ السُّنَّۃِ، وَالْمَعْہُودُ مِنْہَا لَیْسَ إِلَّا زِیَارَتُہٗ وَالدُّعَائُ عِنْدَہٗ قَائِمًا، کَذَا فِي الْبَحْرِ الرَّائِقِ ۔
’’قبر پر مسجد یا کوئی اور عمارت بنانا مکروہ ہے۔السراج الوہاج میں اسی طرح ہے۔ نیز قبر کے پاس وہ کام کرنا بھی مکروہ ہیں ،جو سنت سے ثابت نہیں۔سنت سے صرف یہی ثابت ہے کہ قبر کی زیارت کی جائے اور اس کے پاس کھڑے ہو کر (صاحب قبر کے لیے)دُعا کی جائے۔البحرا لرائق میں یہی لکھا ہے۔‘‘
(الفَتاوی الہِندیۃ : 1/166)
13. علامہ آلوسی بغدادی رحمہ اللہ نے علامہ ابن حجر ہیتمی رحمہ اللہ سے نقل کیا ہے: