کتاب: تبرکات - صفحہ 34
کی عبادت کے بالکل خلاف ہے، کیونکہ مشرکین یہ اعتقاد رکھتے تھے کہ بت ان کو اللہ تعالیٰ کے قریب کرتے ہیں ۔سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے تنبیہ فرمائی کہ اس اعتقاد کی مخالفت کی جائے اور یہ بتایا کہ عبادت صرف اسی کی جائز ہے،جو نفع و نقصان کا مالک ہو اور ایسی ذات صرف اللہ تعالیٰ ہی کی ہے۔‘‘ (عمدۃ القاري للعیني : 9/240) ٭ علامہ ملا علی قاری حنفی رحمہ اللہ (1014ھ) لکھتے ہیں : فِیہِ إِشَارَۃٌ مِنْہُ رَضِيَ اللّٰہُ عَنْہُ إِلٰی أَنَّ ہٰذَا أَمْرٌ تَعَبُّدِيٌّ، فَنَفْعَلُ، وَعَنْ عِلَّتِہٖ لَا نَسْأَلُ ۔ ’’اس میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اس بات کی طرف اشارہ فرما رہے ہیں کہ حجر اسود کو چومنا ایک تعبدی (عبادت کے لیے جاری کیا گیا)حکم ہے۔ہم اسے بجا لائیں گے، لیکن اس کی علت کے بارے میں سوال نہیں کریں گے۔‘‘ (مِرقاۃ المَفاتیح : 3/213) ٭ علامہ شمس الدین، افغانی رحمہ اللہ (1420ھ)فرماتے ہیں : دَلِیلٌ عَلٰی أَنَّ الْحَجَرَ الْـأَسْوَدَ إِذًا لَّا یَنْفَعُ وَلَا یَضُرُّ، وَأَنَّ تَقْبِیلَہٗ عَلٰی خِلَافِ الْقِیَاسِ لِمُجَرَّدِ التَّعَبُّدِ لِلّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ، لاَ لأَِجْلِ التَّبَرُّکِ بِہٖ، فَمَا ظَنُّکَ بِأَحْجَارِ الْقُبُورِ وَأَشْجَارِہَا؟ فَلَا یُقَاسُ عَلَیْہِ تَقْبِیلُ غَیْرِہٖ مِنَ الْـأَحْجَارِ وَالْـأَشْجَارِ، وَفِي کَلَامِ عُمَرَ رَضِيَ اللّٰہُ عَنْہُ إِشَارَۃٌ إِلٰی أَنَّ تَقْبِیلَ الْحَجَرِ لِأَجْلِ الْخَوْفِ وَالطَّمْعِ وَالتَّعْظِیمِ؛ فِیہِ خَوْفُ