کتاب: تبرکات - صفحہ 339
٭ مزید فرماتے ہیں : اَلْمَقْصُودُ ہَاہُنَا أَنَّ الصَّحَابَۃَ وَالتَّابِعِینَ لَہُمْ بِإِحْسَانٍ لَّمْ یَبْنُوا قَطُّ عَلٰی قَبْرِ نَبِيٍّ وَّلَا رَجُلٍ صَالِحٍ مَّسْجِدًا، وَلَا جَعَلُوہُ مَشْہَدًا وَّمَزَارًا، وَلَا عَلٰی شَيْئٍ مِّنْ آثَارِ الْـأَنْبِیَائِ، مِثْلَ مَکَانٍ نَّزَلَ فِیہِ أَوْ صَلّٰی فِیہِ، أَوْ فَعَلَ فِیہِ شَیْئًا مِّنْ ذٰلِکَ، لَمْ یَکُونُوا یَقْصِدُونَ بِنَاء َ مَسْجِدٍ لِّأَجْلِ آثَارِ الْـأَنْبِیَائِ وَالصَّالِحِینَ ۔ ’’غرضیکہ صحابہ و تابعین نے کبھی بھی کسی نبی یا کسی نیک شخص کی قبر پر مسجد نہیں بنائی، نہ کسی کی قبرکو مزار و دربار بنایا۔انہوں نے تو انبیائے کرام کے آثار میں سے کسی اثر،مثلاً جس جگہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑاؤ کیا یا نماز ادا کی یا کوئی اور کام کیا، وہاں پر انبیا و صالحین کے آثار کی بنا پر مسجد بنانے کا قصد نہیں کیا۔‘‘ (مَجموع الفتاویٰ : 17/466) ٭ نیز فرماتے ہیں : ہٰذِہِ الْمَسَاجِدُ الْمَبْنِیَّۃُ عَلٰی قُبُورِ الْـأَنْبِیَائِ، وَالصَّالِحِینَ، وَالْمُلُوکِ وَغَیْرِہِمْ، یَتَعَیَّنُ إِزَالَتُہَا بِہَدْمٍ أَوْ بِغَیْرِہٖ، ہٰذَا مِمَّا لَا أَعْلَمُ فِیہِ خِلَافًا بَیْنَ الْعُلَمَائِ الْمَعْرُوفِینَ، وَتُکْرَہُ الصَّلَاۃُ فِیہَا مِنْ غَیْرِ خِلَافٍ أَعْلَمُہٗ ۔ ’’انبیا وصالحین اور بادشاہوں وغیرہ کی قبروں پر بنی ہوئی مسجدوں کو گرا کر یا کسی اور طریقے سے ختم کرنا ضروری ہے۔اس مسئلے میں معروف اہل علم میں کوئی اختلاف مجھے معلوم نہیں ،نیز ایسی مساجد میں نماز کی ادائیگی بھی بالاتفاق مکروہ ہے۔‘‘ (اقتضاء الصّراط المستقیم : 2/187)