کتاب: تبرکات - صفحہ 338
اور لعنت کی بنا پر ہمارا ظاہر مذہب یہی ہے کہ ایسا کرنا ناجائز ہے۔‘‘ (اقتضاء الصّراط المُستقیم : 2/287) ٭ نیز فرماتے ہیں : اِتَّفَقَ الْـأَئِمَّۃُ أَنَّہٗ لَا یُبْنٰی مَسْجِدٌ عَلٰی قَبْرٍ، لِأَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : ’إِنَّ مَنْ کَانَ قَبْلَکُمْ کَانُوا یَتَّخِذُونَ الْقُبُورَ مَسَاجِدَ، أَلَا فَلَا تَتَّخِذُوا الْقُبُورَ مَسَاجِدَ، فَإِنِّي أَنْہَاکُمْ عَنْ ذٰلِک‘، وَأَنَّہٰ لَا یَجُوزُ دَفْنُ مَیِّتٍ فِي مَسْجِدٍ، فَإِنْ کَانَ الْمَسْجِدُ قَبْلَ الدَّفْنِ غُیِّر، إِمَّا بِتَسْوِیَۃِ الْقَبْرِ، وَإِمَّا بِنَبْشِہٖ إِنْ کَانَ جَدِیدًا، وَإِنْ کَانَ الْمَسْجِدُ بُنِيَ بَعْدَ الْقَبْرِ، فَإِمَّا أَنْ یُّزَالَ الْمَسْجِدُ، وَإِمَّا أَنْ تُزَالَ صُورَۃُ الْقَبْرِ، فَالْمَسْجِدُ الَّذِي عَلَی الْقَبْرِ؛ لَا یُصَلَّی فِیہِ فَرْضٌ وَّلَا نَفْلٌ، فَإِنَّہٗ مَنْہِيٌّ عَنْہُ ۔ ’’ائمہ کرام کا اتفاق ہے کہ قبر پر مسجد نہ بنائی جائے،کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:تم سے پہلے لوگ قبروں پر مسجدیں بناتے تھے، خبردار،تم قبروں کو سجدہ گاہ مت بناؤ،میں تمہیں اس سے منع کرتا ہوں ۔اسی طرح مسجد میں میت کو دفن کرنا بھی جائز نہیں ،اگر مسجد دفن کرنے سے پہلے بنی ہو، تو قبر کو برابر کر دیا جائے یا اگر قبر نئی ہے تو اُسے اکھاڑ دیا جائے۔اگر مسجد بعد میں بنائی گئی ہو،توایسی صورت میں یا تو مسجد کو ختم کر دیا جائے،یا قبر کی صورت ختم کر دی جائے۔ قبر پر بنائی گئی مسجد میں فرض یا نفل کوئی بھی نماز پڑھنا ممنوع ہے۔ ‘‘ (مَجموع الفتاوٰی : 22/194۔195)