کتاب: تبرکات - صفحہ 337
اسے منہدم کر کے ختم کر دیا جائے گا،کیونکہ اس طرح دنیا کی زینت کو آخرت کی سب سے پہلی منزل میں استعمال کیا جاتا ہے،نیز اس سے ان لوگوں کی مشابہت لازم آتی ہے جو قبروں کی تعظیم و عبادت کرتے ہیں ۔ان معانی کے اعتبار سے اور ظاہر ممانعت کو دیکھتے ہوئے اسے حرام قرار دینا ضروری ہے۔‘‘
(تفسیر القُرطبي : 10/381)
٭ نیز فرماتے ہیں :
قَالَ عُلَمَاوُنَا : وَہٰذَا یُحَرِّمُ عَلَی الْمُسْلِمِینَ أَنْ یَّتَّخِذُوا قُبُورَ الْـأَنْبِیَائِ وَالْعُلَمَائِ مَسَاجِدَ ۔
’’علمائے اسلام نے کہا ہے کہ یہ دلائل مسلمانوں پر انبیا اور علماکی قبروں پر مساجد بنانے کو حرام قرار دیتے ہیں ۔‘‘
(تفسیر القرطبي : 1/380)
9. شیخ الاسلام،ابن تیمیہ رحمہ اللہ (728ھ)فرماتے ہیں :
ہٰذِہِ الْمَسَاجِدُ الْمَبْنِیَۃُ عَلٰی قُبُوْرِ الْـأَنْبِیَائِ، وَالصَّالِحِیْنَ، وَالْمُلُوْکِ وَغَیْرِہِمْ، یَتَعَیَّنُ إِزَالَتُہَا بِہَدْمٍ أَوْ بِغَیْرِہٖ، ہٰذَا مِمَّا لَا أَعْلَمُ فِیْہِ خِلَافًا بَیْنَ الْعُلَمَائِ الْمَعْرُوْفِیْنَ، وَتُکْرَہُ الصَّلاۃُ فِیْہَا مِنْ غَیْرِ خِلَافٍ أَعْلَمُہٗ، وَلَا تَصِحُّ عِنْدَناَ فِي ظَاہِرِ الْمَذْہَبِ لِأَجْلِ النَّہْيِ وَاللَّعَنِ الْوَارِدِ فِي ذٰلِکَ، وَلِأَحَادِیْثَ أُخَرَ ۔
’’ انبیائے کرام، صالحین اور بادشاہوں وغیرہ کی قبروں پر بنائی گئی ان مساجد کو منہدم کرنا یا کسی دوسرے طریقے سے ختم کرنا ضروری ہے۔میرے علم کے مطابق اس بارے میں مشہورعلما کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ۔بلا اختلاف ان مسجدوں میں نماز بھی مکروہ ہے۔اس حدیث اور دیگر احادیث میں مذکور ممانعت