کتاب: تبرکات - صفحہ 336
6. علامہ ابن عابدین شامی رحمہ اللہ (۱۲۵۲ھ)لکھتے ہیں : أَمَّا الْبِنَائُ عَلَیْہِ؛ فَلَمْ أَرَ مَنِ اخْتَارَ جَوَازَہٗ ۔ ’’قبر پر عمارت بنانے کو جائز قرار دینے والے کسی اہل علم کو میں نہیں جانتا۔‘‘ (حاشیۃ ابن عابدین : 1/601) 7. حافظ ابن عبد البر رحمہ اللہ ، حدیث عائشہ رضی اللہ عنہا سے استدلال کرتے ہیں : ہٰذَا یُحَرِّمُ عَلَی الْمُسْلِمِینَ أَنْ یَّتَّخِذُوا قُبُورَ الْـأَنْبِیَائِ وَالْعُلَمَائِ وَالصَّالِحِینَ مَسَاجِدَ ۔ ’’یہ حدیث انبیائے کرام، علما اور نیک لوگوں کی قبروں کو سجدہ گاہ بنانا مسلمانوں پر حرام قرار دیتی ہے۔‘‘ (التّمہید لما في المؤطّأ من المَعاني والأسانید : 1/186) 8. علامہ قرطبی رحمہ اللہ (671ھ)سورت کہف کی تفسیر میں لکھتے ہیں : اِتِّخَاذُ الْمَسَاجِدِ عَلَی الْقُبُورِ، وَالصَّلَاۃُ فِیہَا، وَالْبِنَائُ عَلَیْہَا، إِلٰی غَیْرِ ذٰلِکَ، مِمَّا تَضَمَّنَتْہُ السُّنَّۃُ مِنَ النَّہْيِ عَنْہُ؛ مَمْنُوعٌ لَّا یَجُوزُ ۔ ’’قبروں پر مساجد،ان میں نماز،ان پر عمارت بنانا اور دیگر وہ امورجن سے سنت نے منع فرمایا ہے،وہ ممنوع اور حرام ہیں ۔‘‘ (تفسیر القُرطبي : 1/379) ٭ نیز فرماتے ہیں : أَمَّا تَعْلِیَۃُ الْبِنَائِ الْکَثِیرِ عَلٰی نَحْوِ مَا کَانَتِ الْجَاہِلِیَّۃُ تَفْعَلُہٗ تَفْخِیمًا وَّتَعْظِیمًا؛ فَذٰلِکَ یُہْدَمُ وَیُزَالُ، فَإِنَّ فِیہِ اسْتِعْمَالُ زِینَۃِ الدُّنْیَا فِي أَوَّلِ مَنَازِلِ الْآخِرَۃِ، وَتَشَبُّہًا بِمَنْ کَانَ یُعَظِّمُ الْقُبُورَ وَیَعْبُدُہَا، وَبِاعْتِبَارِ ہٰذِہِ الْمَعَانِي وَظَاہِرِ النَّہْيِ أَنْ یَّنْبَغِيَ أَنْ یُّقَالَ : ہُوَ حَرَامٌ ۔ ’’رہا قبروں پر اہل جاہلیت کی طرح تکریم و تعظیم کے لیے عمارتیں بلند کرنا،تو