کتاب: تبرکات - صفحہ 334
ہے۔۔۔ مختلف مکاتب ِفکر کے اکثر علمائِ کرام نے اس کی ممانعت پر مبنی احادیث کی پیروی میں واضح طور پر اس سے منع کیا ہے۔اس کام کو قطعی طور پر حرام کہنے میں کوئی شک و شبہ نہیں ۔‘‘ (الأمر بالاتّباع، ص 60-59) ٭ نیز لکھتے ہیں : ہٰذِہِ الْمَسَاجِدُ الْمَبْنِیَۃُ عَلَی الْقُبُوْرِ یَتَعَیَّنُ إِزَالَتُہَا، ہٰذَا مِمَّا لَا خِلَافَ فِیْہِ بَیْنَ الْعُلَمَائِ الْمَعْرُوْفِیْنَ، وَتُکْرَہُ الصَّلَاۃُ فِیْہَا مِنْ غَیْرِ خِلَافٍ ۔ ’’معروف علما کا اس پر اتفاق ہے کہ قبروں پر تعمیر شدہ مسجدیں منہدم کرنا ضروری ہے،نیز وہاں نماز پڑھنا بھی بالاتفاق مکروہ ہے۔ ‘‘ (الأمر بالاتّباع، ص 115، وفي نسخۃ، ص 61) 4. حافظ نووی رحمہ اللہ (۶۷۶ھ)لکھتے ہیں : اِتَّفَقَتْ نُصُوصُ الشَّافِعِيِّ وَالْـأَصْحَابِ عَلٰی کَرَاہَۃِ بِنَائِ مَسْجِدٍ عَلَی الْقَبْرِ، سَوَائٌ کَانَ الْمَیِّتُ مَشْہُورًا بِالصَّلَاحِ، أَوْ غَیْرِہٖ، لِعُمُومِ الْـأَحَادِیثِ ۔ ’’امام شافعی رحمہ اللہ اور ان کے اصحاب کے فتاویٰ قبر پر مسجد بنانے کے مکروہ ہونے پر متفق ہیں ۔حدیث کے عموم کے پیش نظر میت نیک ہو یا بد،اس معاملے میں برابر ہے۔‘‘ (المَجموع شرح المہذّب : 5/316) ٭ حافظ نووی رحمہ اللہ سے ایک سوال ہوا،اس کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں :