کتاب: تبرکات - صفحہ 333
علمائے کرام کی تصریحات :
قبروں پر مسجدیں بنانا بالاجماع حرام اور ممنوع ہیں ، اہل علم کی تصریحات ملاحظہ ہوں :
1. امام شافعی رحمہ اللہ قبر پر مسجد بنانے،اس پر یا اس کی طرف رُخ کر کے نماز پڑھنے کو مکروہ سمجھتے تھے۔‘‘ (الأمّ : 1/278)
2. شیخ الاسلام،ابن تیمیہ رحمہ اللہ (۷۲۸ھ)فرماتے ہیں :
قَالَ عُلَمَاؤُنَا : لَا یَجُوزُ بِنَائُ الْمَسْجِدِ عَلَی الْقُبُورِ، وَقَالُوا : إنَّہٗ لَا یَجُوزُ أَنْ یُّنْذَرَ لِقَبْرٍ، وَلَا لِلْمُجَاوِرِینَ عِنْدَ الْقَبْرِ شَیْئًا مِّنَ الْـأَشْیَائِ، لَا مِنْ دِرْہَمٍ، وَلَا مِنْ زَیْتٍ، وَلَا مِنْ شَمْعٍ، وَلَا مِنْ حَیَوَانٍ، وَلَا غَیْرِ ذٰلِکَ، کُلُّہٗ نَذْرُ مَعْصِیَۃٍ ۔
’’علمائے اسلام کا کہناہے کہ قبروں پر مساجد بنانا جائز نہیں ہے۔ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ کسی قبر اور وہاں بیٹھے مجاورین کیلئے کسی قسم کی چیز ،مثلاً درہم و دینار، تیل، موم بتی،جانور وغیرہ بغرضِ نذر لانا جائز نہیں ،کیونکہ یہ تمام نذریں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی پر مبنی ہیں ۔‘‘ (مَجموع الفتاویٰ : 27/77)
3. حافظ سیوطی رحمہ اللہ (۹۱۱ھ)لکھتے ہیں :
أَمَّا بِنَائُ الْمَسَاجِدِ عَلَیْہَا، وَإِشْعَالُ الْقَنَادِیْلِ وَالشُّمُوْعِ أَوِ السُّرُجِ عِنْدَہَا؛ فَقَدْ لُعِنَ فَاعِلُہٗ۔۔۔، وَصَرَّحَ عَامَّۃُ عُلَمَائِ الطَّوائِفِ بِالنَّہْيِ عَنْ ذٰلِکَ مُتَابَعَۃً لِّلأَْحَادِیْثِ الْوَارِدَۃِ فِي النَّہْيِ عَنْ ذٰلِکَ، وَلاَ رَیْبَ فِي الْقَطْعِ بِتَحْرِیْمِہٖ ۔
’’قبروں پر مساجد بنانے،وہاں لالٹینیں و شمعیں جلانے والے پر لعنت کی گئی