کتاب: تبرکات - صفحہ 332
کرتے تھے، یوں انہوں نے قبروں کو معبدخانہ بنا رکھا تھا۔رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو اس کام سے منع فرما دیا۔اب اگر کوئی شخص کسی نیک آدمی کی قبر کے پڑوس میں مسجد بنا لیتا ہے اور اس کا مقصد نیک آدمی سے تبرک حاصل کرنا ہے،نہ کہ اس کی تعظیم کرنا،نہ ہی وہ اس کی طرف رُخ کر کے نماز پڑھتا ہے ،تو وہ اس وعید میں داخل نہیں ہے۔میں (صنعانی رحمہ اللہ )کہتاہوں :بیضاوی اگر یہ کہتا ہے کہ یہ کام تعظیم کے لیے نہ ہو، تو جائز ہے، تو اسے یہ جواب دیا جائے گا کہ قبر کے قریب مسجد بنانا اور اس سے تبرک حاصل کرنا تعظیم ہی تو ہے۔نیز قبر پر مسجد بنانے سے ممانعت والی احادیث مطلق ہیں اور بیضاوی کی ذکر کردہ تاویل پر کوئی دلیل موجود نہیں ہے۔ ‘‘
(سُبُل السّلام : 1/229)
فائدہ نمبر 3
بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ مسجدیں قبروں کے اوپر نہیں ، ایک طرف بنائی جاتی ہیں ۔ لیکن یاد رہے کہ جو مسجد قبر کے پاس بنائی جائے،وہ قبر کے اوپر ہی ہے، مثلاً کہا جاتا ہے:
بنَیَ السُّلْطَانُ عَلٰی مَدِیْنَۃِ کَذٰا، أَوْ عَلٰی قَرْیَۃِ کَذٰا سُوْرًا ۔
’’فلاں بادشاہ نے فلاں شہر یا بستی پر فصیل بنائی ہے۔‘‘
حالانکہ فصیل شہر یا بستی کے اوپر نہیں بنائی جاتی، بلکہ اس کے ارد گرد واقع ہوتی ہے۔ عربی زبان میں اس کا استعمال بکثرت ہے۔