کتاب: تبرکات - صفحہ 330
٭ شیخ الاسلام،ابن تیمیہ رحمہ اللہ (۷۲۸ھ)فرماتے ہیں :
أَمَّا إِذَا قَصَدَ الرَّجُلُ الصَّلَاۃَ عِنْدَ بَعْضِ قُبُوْرِ الْـأَنْبِیَائِ وَالصَّالِحِیْنَ، مُتَبَرِّکًا بِالصَّلاَۃِ فِي تِلْکَ الْبُقْعَۃِ؛ فَہٰذَا عَیْنُ الْمُحَادَّۃِ لِلّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ، وَالْمُخَالِفَۃِ لِدِیْنِہٖ، وَابْتِدَاعِ دِیْنٍ لَّمْ یَأْذَنْ بِہِ اللّٰہُ، فَإِنَّ الْمُسْلِمِیْنَ قَدْ أَجْمَعُوْا عَلٰی مَا عَلِمُوْہٗ بِالاِْضْطِرَارِ مِنْ دِیْنِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، مِنْ أَنَّ الصَّلَاۃَ عِنْدَ الْقَبْرِ، أَيِّ قَبْرٍ کَانَ، لَا فَضْلَ فِیْہَا لِذٰلِکَ، وَلَا لِلصَّلاَۃِ فِي تِلْکَ الْبُقْعَۃِ مَزِیَّۃُ خَیْرٍ أَصْلاً، بَلْ مَزِیَّۃُ شَرٍّ ۔
’’جب کوئی انسان انبیا اور نیک لوگوں کی قبروں کی طرف نماز کا قصد کرتا ہے، تاکہ اس جگہ سے برکت حاصل کرے،تو اس کا یہ کام اللہ اور اس کے رسول کی عین دشمنی، دین اسلام کی عین مخالفت اور ایسے دین کی ایجاد ہے، جس کا اللہ نے حکم نہیں دیا۔مسلمانوں کا اتفاق ہے اور یقینی طور پر یہ بات دینِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے واضح طور پر ثابت ہے کہ کسی بھی قبر کے پاس نماز پڑھنے میں کوئی فضیلت نہیں ،نہ ہی اس جگہ نماز پڑھنے میں کوئی خاص بھلائی ہے، البتہ خاص شر کا عنصر ضرور پایا جاتا ہے۔‘‘
(اقتضاء الصّراط المستقیم : 2/193)
فائدہ نمبر 1
علامہ آلوسی سورت کہف آیت نمبر 21کی تفسیر میں لکھتے ہیں :
ہٰذَا وَاسْتُدِلَّ بِالْآیَۃِ عَلٰی جَوَازِ الْبِنَائِ عَلٰی قُبُوْرِ الصُّلَحَائِ، وَاتِّخَاذِ مَسْجِدٍ عَلَیْہَا، وَجَوَازِ الصَّلاَۃِ فِي ذٰلِکَ، وَمِمَّنْ ذَکَرَ