کتاب: تبرکات - صفحہ 33
نہیں کرتے تھے،بلکہ وہ اس چیز سے قطعاً ناواقف تھے۔رہے آثار ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم ،تو ان سے تبرک کا ثبوت شریعت میں موجود ہے اور اسلاف ِامت اس پر عمل پیرا تھے۔
٭ علامہ احمد بن عبداللہ،طبری رحمہ اللہ (694ھ) فرماتے ہیں :
إِنَّمَا قَالَ ذٰلِکَ لِأَنَّ النَّاسَ کَانُوا حَدِیثِيْ عَہْدٍ بِعِبَادَۃِ الْـأَصْنَامِ، فَخَشِيَ عُمَرُ رَضِيَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ أَنْ یَّظُنَّ الْجُہَّالُ بِأَنَّ اسْتِلَامَ الْحَجَرِ ہُوَ مِثْلُ مَا کَانَتِ الْعَرَبُ تَفْعَلُہٗ، فَأَرَادَ عُمَرُ رَضِيَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ أَنْ یُّعْلِمَ أَنَّ اسْتِلَامَہٗ لَا یُقْصَدُ بِہٖ إِلاَّ تَعْظِیمُ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ، وَالْوُقُوفُ عِنْدَ أَمْرِ نَبِیِّہٖ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَأَنَّ ذٰلِکَ مِنْ شَعَائِرِ الْحَجِّ الَّتِي أَمَرَ اللّٰہُ بِتَعْظِیمِہَا، وَأَنَّ اسْتِلَامَہٗ مُخَالِفٌ لِّفِعْلِ الْجَاہِلِیَّۃِ فِي عِبَادَتِہِمُ الْـأَصْنَامَ، لِأَنَّہُمْ کَانُوا یَعْتَقِدُونَ أَنَّہَا تُقَرَّبُہُمْ إِلَی اللّٰہِ زُلْفٰی، فَنَبَّہَ عُمَرُ عَلٰی مُخَالِفَۃِ ہٰذَا الِاعْتِقَادِ، وَأَنَّہٗ لَا یَنْبَغِي أَنْ یُّعْبَدَ إِلاَّ مَنْ یَّمْلِکُ الضَّرَرَ وَالنَّفْعَ، وَہُوَ اللّٰہُ جَلَّ جَلَالُہٗ ۔
’’سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے یہ بات اس لیے فرمائی کہ لوگ نئے نئے بتوں کی عبادت کو چھوڑ کر آئے تھے۔آپ کو خدشہ ہوا کہ کہیں جاہل لوگ یہ نہ سمجھ بیٹھیں کہ حجر اسود کو چومنے کا عمل عربوں کے (دورِ جاہلیت والے)عمل کی طرح ہے۔آپ نے اس بات سے خبردار کرنا چاہا کہ ان کے حجر اسود کو چومنے کا مقصد صرف اللہ تعالیٰ کی تعظیم اور فرمانِ نبوی کی پیروی ہے،نیز یہ ان شعائر ِحج میں سے ہے، جن کی تعظیم کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے اور حجر اسود کو چومنا دور ِجاہلیت والی بتوں