کتاب: تبرکات - صفحہ 329
بات لازم نہیں آتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کو مسجد اور معبدخانہ بنایا گیا ہے،بلکہ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کو شرف ِقبولیت بخشا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے یا سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی ملکیت والے گھر میں دفنایا گیا۔مسجد اس کے بہت قریب تھی، جب مسجد کی توسیع ہوئی،تو اس وقت نہ ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر سے خارج ہوئے اور نہ ہی اس گھر کو مسجد بنایا گیا۔ہاں !البتہ مسجد بالکل متصل ہو گئی۔قبر کو مسجد بنائے جانے والی بات تو تب لازم آتی ہے،جب کسی میت کو مباح وعام قبرستان میں دفنایا جائے، پھر اس پر مسجد بنالی جائے۔‘‘ (العِدّۃ علی إحکام الأحکام : 3/261) ٭ قبروں کی طرف رخ کر کے نماز پڑھنے کی ممانعت کے متعلق وارد شدہ احادیث کے بارے میں علامہ شوکانی رحمہ اللہ (۱۲۵۰ھ)فرماتے ہیں : أَحَادِیثُ النَّہْيِ الْمُتَوَاتِرَۃُ کَمَا قَالَ ذٰلِکَ الْإِمَامُ، لَا تَقْصُرُ عَنِ الدَّلَالَۃِ عَلَی التَّحْرِیمِ الَّذِي ہُوَ الْمَعْنَی الْحَقِیقِیُّ لَہٗ، وَقَدْ تَقَرَّرَ فِي الْـأُصُولِ أَنَّ النَّہْيَ یَدُلُّ عَلٰی فَسَادِ الْمَنْہِيِّ عَنْہُ، فَیَکُونُ الْحَقُّ التَّحْرِیمَ وَالْبُطْلَانَ ۔ ’’اس ممانعت والی احادیث متواتر ہیں ، جیسا کہ امام نے فرمایاہے۔ان کی دلالت، حرمت سے کم نہیں ،جو اس کا حقیقی معنی ہے۔ اصول سے یہ بات واضح ہے کہ کسی چیز سے ممانعت اس کے فاسد ہونے کی دلیل ہوتی ہے۔چنانچہ اس کا صحیح مطلب یہ ہوا کہ یہ کام حرام اور باطل ہے۔‘‘ (نیل الأوطار : 2/137)