کتاب: تبرکات - صفحہ 328
ہے۔اس کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ساتھ یہ بھی فرما دیا کہ ’’اپنے گھروں کو قبرستان مت بناؤ۔‘‘ مطلب اس کا یہ ہے کہ گھروں کو نماز، دعا اور تلاوت قرآن سے خالی مت کرو، کیونکہ ایسے تووہ قبرستان کی طرح ہو جائیں گے۔ گھروں میں عبادت کا حکم دیا گیا اور قبروں کے پاس عبادت سے روکا گیا ہے، مگر نصاریٰ اور ان جیسے مشرک اس کے برعکس چلتے ہیں ۔‘‘
(اقتضاء الصّراط المستقیم : 2/172)
٭ علامہ محمد بن اسماعیل،صنعانی رحمہ اللہ قبر رسول کے بارے میں فرماتے ہیں :
اَلتَّحْقِیْقُ أَنَّ قَبْرَہٗ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَمْ یُعَمَّرْ عَلَیْہِ الْمَسْجِدُ، لأَِنَّہٗ مَوْضِعٌ مُّسْتَقِلٌّ قَبْلَ بِنَائِ الْمَسْجِدِ بِدَفْنِہٖ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَلَمْ یَصْدُقْ عَلَیْہِ أَنَّہٗ جَعَلَ قَبْرَہٗ مَسْجِداً أَوْ وَثَناً یُّعْبَدٗ، بَلْ قَدْ أَجَابَ اللّٰہُ دُعَائَہٗ، فَدُفِنَ فِي بَیْتِہٖ وَفِي مَنْزِلِہِ الَّذِي یَمْلِکُہٗ، أَوْ تَمْلِکُہٗ زَوْجُہٗ عَائِشَۃُ، وَکَانَ الْمَسْجِدُ أَقْرَبَ شَيْئٍ إِلَیْہِ، ثُمَّ لَمَّا وُسِّعَ الْمَسْجِدُ لَمْ یَخْرُجْ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنْ بَیْتِہٖ، وَلَا جَعَلَ بَیْتَہٗ مَسْجِداً، بَلْ غَایَتُہٗ أَنَّہُ اتَّصَلَ الْمَسْجِدُ بِہٖ اتِّصَالاً أَشَدَّ مِمَّا کَانَ، فَالَّذِي یَصْدُقُ عَلَیْہِ أَنَّہُ اتَّخَذَ مَسْجِداً؛ إِنَّمَا ہُوَ أَنْ یُّدْفَنَ الْمَیِّتُ فِي مَسْجِدٍ مُّسَبَّلٍ أَوْ فِي مُبَاحِ، ثُمَّ یُعْمَرُ عَلَیْہِ مَسْجِدٌ ۔
’’تحقیقی بات یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک پر مسجد نہیں بنائی گئی،کیونکہ یہ مقام مسجد تعمیر کیے جانے سے پہلے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مستقل مدفن تھا۔چنانچہ یہ