کتاب: تبرکات - صفحہ 326
بھی لگاتے ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں کو میلہ گاہ اور مزار بنانے سے روکا، جبکہ یہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کرتے ہوئے میلہ گاہ بناتے ہیں اور ان پر عید وغیرہ سے بڑھ کر اجتماعات کرتے ہیں ۔حاصل کلام یہ ہے کہ یہ ہر اس بات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کرتے ہیں ،جس کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم فرمایا یا جس سے روکا۔یوں یہ لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی شریعت سے دشمنی کماتے ہیں۔‘‘ (زیارۃ القُبور، ص 15) ٭ ملا علی قاری رحمہ اللہ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں : أَيْ مُسْتَقْبِلِینَ (إِلَیْہَا)، لِمَا فِیہِ مِنَ التَّعْظِیمِ الْبَالِغِ، لِأَنَّہٗ مِنْ مَّرْتَبَۃِ الْمَعْبُودِ، فَجَمَعَ بَیْنَ الِاسْتِحْقَاقِ الْعَظِیمِ وَالتَّعْظِیمِ الْبَلِیغِ، قَالَہُ الطِّیبِيُّ، وَلَوْ کَانَ ہٰذَا التَّعْظِیمُ حَقِیقَۃً لِّلْقَبْرِ أَوْ لِصَاحِبِہٖ؛ لَکَفَرَ الْمُعَظِّمُ … ۔ ’’اس کا مطلب یہ ہے کہ نماز پڑھتے وقت ان(قبور)کی طرف رخ نہ کرو، کیونکہ یہ تعظیم میں مبالغہ آرائی ہے اور یہ حق صرف معبود کا ہے۔ایسا شخص(غیر اللہ کے لیے)عظیم استحقاق اور حد درجہ تعظیم کو ایک ساتھ جمع کر دیتا ہے۔یہ بات علامہ طیبی رحمہ اللہ نے کہی ہے۔اگر یہ تعظیم واقعی قبر اور صاحب ِ قبر کے لیے کی جائے،تو ایسا کرنے والا کافر ہو جاتا ہے۔‘‘ (مِرقاۃ المَفاتیح : 2/372) 8. حدیث ِ ابن عمر رضی اللہ عنہما : سیّدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: