کتاب: تبرکات - صفحہ 32
حجر اسود کو بوسہ دینا اور رکن یمانی کو چھونا جائز نہیں ،کیونکہ یہ عبادت ہے اور عبادت کا موقع و محل متعین کرنے کا اختیار صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہے۔رہا یہ کہنا کہ حجراسود کو بوسہ اس لیے دیا جاتا ہے ،رکن یمانی کو چھوا اس لیے جاتا ہے اور مقامِ ابراہیم پر نماز کی ادائیگی اس لیے کی جاتی ہے کہ اس سے تبرک حاصل کیا جائے،تو یہ غلط فہمی ہے۔ جسے دُور کیا جانا ضروری ہے۔حجر اسود، رکن یمانی اور مقامِ ابراہیم کو واسطہ تیمن و تبرک بنانا صحابہ و تابعین اور ائمہ دین سے ثابت نہیں ۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے حجر اسود کو چومتے ہوئے واضح طور پر یہ اعلان کر دیا تھا کہ اطاعت ِ رسول کے علاوہ اسے چھونے کا اور کوئی مقصد نہیں ،ملاحظہ فرمائیں : ٭ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ حجر اسود کے پاس آئے،اسے بوسہ دیا اور فرمایا : ’إِنِّي أَعْلَمُ أَنَّکَ حَجَرٌ، لَا تَضُرُّ وَلاَ تَنْفَعُ، وَلَوْلاَ أَنِّي رَأَیْتُ النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُقَبِّلُکَ؛ مَا قَبَّلْتُکَ‘ ۔ ’’بلاشبہ میں جانتا ہوں کہ تُو ایک پتھر ہے،نہ نفع دیتا ہے نہ نقصان۔اگر میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو تجھے بوسہ دیتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا،تو میں تجھے بوسہ نہ دیتا۔‘‘ (صحیح البخاري : 1597، صحیح مسلم : 1270) کیا سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے اس فرمان کو جان کر بھی کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ حجر اسود کو تبرک کی نیت سے چوما جاتا ہے؟ اسلافِ امت حجر اسود کو بوسہ دیتے تھے،رکن یمانی کو چھوتے تھے اور مقامِ ابراہیم پر نماز ادا کرتے تھے،لیکن تبرک کی نیت سے نہیں ،بلکہ پیروی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نیت سے ایسا کرتے تھے۔پھر یہی اسلاف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کسی اور کے آثار سے تبرک حاصل