کتاب: تبرکات - صفحہ 313
ممانعت میں ’’نہ کرو‘‘ اور’’میں تمہیں منع کرتا ہوں ‘‘ کے الفاظ سے جو مبالغہ کیا گیا ہے، یہ اس لیے نہیں کہ اس میں ظاہری نجاست ہے،بلکہ اس لیے کہ اس میں شرک کی نجاست ہے، جو ہر اس شخص کو لاحق ہو جائے گی،جو اس معاملے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کرے گا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے منع کردہ کام کا ارتکاب کرے گا،نفس پرستی کا شکار ہو گا،اپنے رب اور مولا سے نہ ڈرے گا اور اس کا کلمہ شہادت پر یقین بہت کم یا نہ ہونے کے برابر ہو جائے گا۔یہ اور اس طرح کے دوسرے اقدام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے توحید کی حفاظت کے لیے فرمائے،تاکہ شرک اس کے ساتھ خلط ملط نہ ہو جائے،توحید پر شرک غالب نہ آ جائے اور توحید نکھر کر سامنے آئے۔نیز اس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اپنے رب کے ساتھ شرک کرنے پر غصے کا اظہار ہے،مگر مشرکین نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان مبارک کی نافرمانی اور منع کردہ کاموں کے ارتکاب کی ٹھان لی۔ شیطان نے انہیں دھوکا دیتے ہوئے کہا کہ یہ کام تو مشایخ اور صالحین کی قبروں کی تعظیم ہے، تم ان قبروں کی جتنی زیادہ تعظیم کرو گے اور غلو سے کام لو گے،تمہیں ان قبروں والوں کی اتنی ہی قربت حاصل ہو گی اور ان کے دشمنوں سے تم اتنے ہی دور ہو جاؤ گے۔اللہ کی قسم!یغوث،یعوق اور نسرکے پجاریوں کے ہاں شیطان اسی دروازے سے داخل ہوا تھا، شروع دن سے بت پرستوں کے پاس بھی وہ اسی دروازے سے آیااورقیامت تک ایسا ہی ہو گا۔ مشرکین نے ایک طرف انبیا و صالحین کے متعلق غلو سے کام لیا،تو دوسری طرف ان کی تعلیمات پر طعن و تشنیع کی۔اللہ تعالیٰ نے اہل توحید کو انبیائے کرام کے راستے پر چلنے کی ہدایت