کتاب: تبرکات - صفحہ 311
اِنْتَہٰی، إِذْ لَا فَرْقَ بَیْنَ عِبَادَۃِ الْقَبْرِ وَمَنْ فِیْہِ وَعِبَادَۃِ الصَّنَمِ ۔ ’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت کو یہود ونصاریٰ کے فعل شنیع سے دُور رکھنا چاہتے تھے۔ ظاہری طور پر یہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا ہی کا قول ہے،کیونکہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان سے یہ فہم لیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت کو ان کاموں سے ڈرانا چاہتے تھے،جو کام یہود و نصاریٰ نے اپنے انبیا کی قبروں کے ساتھ کیے،کیونکہ یہ کام انبیا کی شان میں غلو ہے اور شرک کے بڑے اسباب میں سے ہے۔اسلام کی اجنبیت کا یہ عالم ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جس کام کے کرنے والوں پر لعنت کی اور امت کو متنبہ فرمایا کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور دیگر صالحین کی قبروں کے ساتھ یہ کام نہ کریں ، بہت سے متاخرین امت نے اسی کام کو اپنایا اور اسے قربِ الٰہی کا ذریعہ بھی سمجھ لیا،حالانکہ یہ بہت بڑا گناہ اور سخت منکر کام ہے۔ان لوگوں کو اس بات کا شعور تک نہیں کہ یہ تو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی مخالفت ہے۔علامہ قرطبی رحمہ اللہ نے اس حدیث کی شرح میں لکھا ہے: ’’یہ سب کچھ صاحب قبر کی عبادت سے بچانے کے لیے کیا گیا کہ بت پرستی کا سبب بھی یہی تھا۔‘‘ کیونکہ قبر اورصاحب ِقبر کی عبادت اور بتوں کی پوجا میں کوئی فرق نہیں ۔‘‘ (فتح المجید شرح کتاب التّوحید، ص 234) ٭ علامہ ابن قیم رحمہ اللہ (751ھ)لکھتے ہیں : بِالْجُمَلَۃِ فَمَنْ لَّہٗ مَعْرِفَۃٌ بِالشِّرْکِ وَأَسْبَابِہٖ وَذَرَائِعِہٖ، وَفَہِمَ عَنِ الرَّسَوْلِ صَلَّی اللّٰہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَسَلَّمَ مَقَاصِدَہٗ؛ جَزَمَ جَزْماً لَّا یَحْتَمِلُ النَّقِیْضَ أَنَّ ہٰذِہِ الْمُبَالَغَۃُ مِنْہُ بِالَّلعَنِ وَالنَّہْيِ بِصَیِغْتَیْہِ؛