کتاب: تبرکات - صفحہ 31
وضو کے بچے ہوئے پانی اور پسینے کو لیں ،کیونکہ اس میں اللہ تعالیٰ نے برکت رکھی تھی۔ اس معاملے میں کسی اور کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر قیاس نہیں کیا جا سکتا۔یہی وجہ تھی کہ صحابہ کرام نے سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے آثار سے تبرک نہیں لیا،نہ سیدنا عمر، سیدنا عثمان اور سیدنا علی رضی اللہ عنہم کے ساتھ ایسا کیا گیا، حالانکہ یہ ہستیاں انبیا کے بعد سب سے بزرگ ترین ہستیاں تھیں۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ تبرک نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص تھا۔کچھ لوگ جو بعض علما،بعض عابدوں ، کعبہ کی بعض دیواروں یا غلاف ِکعبہ سے تبرک لیتے ہیں ،اس کی کوئی دلیل نہیں ، بلکہ اس سے روکنا ضروری ہے۔‘‘
(مَجموع فتاوی ابن باز : 28/285۔286)
حجر اسود اور آثارِ صالحین سے تبرک:
٭ ڈاکٹر محمد طاہر القادری صاحب لکھتے ہیں :
’’جیسے مناسک ِحج ادا کرتے ہوئے حجر اسود،رکن یمانی اور مقامِ ابراہیم سے برکت کا حصول شرک نہیں ،تو کسی پیغمبر یا ولی سے واسطہ تیمن یا واسطہ تبرک شرک کیسے ہو گا؟اگر ایک پتھر کو واسطہ بنا لینا جائز ہو اور انبیا و اولیا کو واسطہ بنانا ناجائز اور شرک تصور کیا جائے،تو یہ حقیقی تصور ِدین کے خلاف ہے۔‘‘
(تبرک کی شرعی حیثیت، ص 19)
الحمد للہ!ہم نے تبرکِ مشروع اور تبرکِ ممنوع کی وضاحت کر دی ہے۔حجر اسود کو بوسہ دینا، رکن یمانی کو چھونا اور مقامِ ابراہیم پر نماز ادا کرنا شرعاً جائز ہے۔یہ سب کچھ قرآن و حدیث کی پیروی میں کیا جاتا ہے۔ان اعمال کا اپنا خاص موقع و محل ہے۔طواف کے علاوہ