کتاب: تبرکات - صفحہ 308
منہ کرکے نماز ادا کرے گا،تو قبلہ کی طرف منہ نہیں ہو گا)۔‘‘
(فتح الباري : 3/200)
٭ علامہ ابو العباس قرطبی رحمہ اللہ (656ھ)اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں :
لِہٰذَا بَالَغُ الْمُسْلِمُوْنَ فِي سَدِّ الذَّرِیْعَۃِ فِي قَبْرِ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَأَعْلَوْا حِیْطَانَ تُرْبَتِہٖ، وَسَدُّوا الْمَدَاخِلَ إِلَیْہَا، وَجَعَلُوْہَا مُحَدَّقَۃً بِقَبْرِہٖ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ خَافُوْا أَنْ یُّتَخَذَ مَوْضِعُ قَبْرِہٖ قِبْلَۃٌ، إِذْ کَانَ مُسْتَقْبَلَ الْمُصَلِّیْنَ، فَتُتَصَوَّرُ الصَّلَاۃُ إِلَیْہِ بِصُوْرَۃِ الْعِبَادَۃِ، فَبَنَوْا جِدَارَیْنِ مِنْ رُکْنَيِ الْقَبْرِ الشِّمَالَیَیْنَ، وَحَرَّفُوْہُمَا حَتَّی الْتَقَیَا عَلٰی زَاوِیَۃٍ مُثَلَّثٍ مِّنْ نَّاحِیَۃِ الشِّمَالِ ، حَتّٰی لَا یَتَمَکَّنَ أَحَدٌ مِنْ اسْتِقْبَالِ قَبْرِہٖ، وَلِہٰذَا الَّذِي ذَکَرْنَاہُ کُلَّہٗ، قَالَتْ عَائِشَۃُ : وَلَوْلاَ ذٰلِکَ أُبْرِزَ قَبْرُہٗ ۔
’’مسلمانوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کے متعلق سختی سے سد ذرائع اختیار کرتے ہوئے دیواروں کو اونچا کر دیا،داخلی راستوں کو بند کر دیا،اسے چاروں طرف سے گھیر لیا۔نیزجب انہیں قبر نبوی کے متعلق قبلہ رخ ہونے کا خدشہ ظاہر ہوا،کیونکہ قبر نمازیوں کے سامنے آ رہی تھی اور بوقت ِعبادت، قبر کے لیے نماز کا تصور ہو سکتا تھا،توانہوں نے قبر کی شمالی سمت دو دیواریں بنا دیں ،دونوں دیواروں کو شمالی سمت سے تھوڑا سا موڑ کر مثلث کی شکل دے دی،تاکہ کسی کے لیے قبر کا قبلہ ہونا ممکن نہ رہے۔اوپر ذکر کردہ اسباب کی بنا پر سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے یہ