کتاب: تبرکات - صفحہ 304
میلے ٹھیلے کی جگہ بنانے سے منع فرمایا،حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی امت کے رہنما ہیں ، صالحین امت کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات ہی میں اسوہ ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے اقوال وافعال کا اتباع مشعلِ راہ ہے۔(اگر یہ کام جائز ہوتا، تو) آپ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے بڑھ کر اس کے مستحق تھے، چنانچہ امت میں سے کسی کا فعل اور کسی کی نیکی کیسے اس منکر کام کو اس کی قبر پر جائز قرار دے سکتی ہے؟فضیلت کا منبع و مرجع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی ذات ہے۔کسی بھی فضیلت کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی فضیلت سے کوئی ادنیٰ سی نسبت بھی نہیں ہو سکتی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلے میں اس کا کوئی بھی اعتبار نہیں ہو سکتا۔جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک قبر پر بھی یہ کام ممنوع و حرام ہیں اور ایسا کرنے والا ملعون ہے،تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی امتی کی قبر کے بارے میں کیا رائے رکھی جا سکتی ہے؟ اور حرام و منکر کاموں کے جواز میں کسی فضیلت کا کیسے کوئی دخل ہو سکتا ہے؟‘‘ (شرح الصُّدور بتحریم رفع القبور، ص 39۔40) ٭ شیخ عبدالرحمن بن حسن رحمہ اللہ (1285ھ)لکھتے ہیں : قَوْلُہٗ : ’وَالَّذِیْنَ یَتَّخِذُوْنَ الْقُبُوْرَ مَسَاجِدَ‘ مَعْطُوْفٌ عَلٰی خَبَرِ إِنَّ فِي مَحَلِّ نَصْبٍ عَلٰی نِیَّۃِ تِکْرَارِ الْعَامِلِ، أَيْ وَإِنَّ مِنْ شِرَارَ النَّاسِ الَّذِیْنَ یَتَّخِذُوْنَ الْقُبُوْرَ مَسَاجِدَ، أَيْ بِالصَّلاَۃِ عِنْدَہَا وَإِلَیْہَا، وَبِنَائِ الْمَسَاجِدِ عَلَیْہَا، وَتَقَدَّمَ فِي الْـأَحَادِیْثِ الصَّحِیْحَۃِ أَنَّ ہٰذَا مِنْ عَمَلِ الْیُہُوْدِ وَالنَّصَارٰی، وَأَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَعَنَہُمْ عَلٰی ذٰلِکَ، تَحْذِیْرًا لِّلْـأُمَّۃِ أَنْ یَّفْعَلُوْا مَعَ نَبِیِّہِمْ وَصَالِحِیْہِمْ مِّثْلَ