کتاب: تبرکات - صفحہ 303
لِأُمَّتِہٖ، وَلِأَہْلِ الْفَضْلِ مِنَ الْقُدْوَۃِ بِہٖ، وَالتَّأَسِّي بِأَفْعَالِہٖ وَأَقْوَالِہِ الْحَظُّ الْـأَوْفَرِ، وَہُمْ أَحَقُّ الْـأُمَّۃِ بِذٰلِکَ وَأَوْلَاہُمْ بِہٖ، وَکَیْفَ یَکُوْنُ فِعْلُ بَعْضِ الْـأُمَّۃِ وَصَلَاحُہٗ مُسَوِّغًا لِّفِعْلِ ہٰذَا الْمُنْکَرِ عَلٰی قَبْرِہٖ؟ وَأَصْلُ الْفَضْلِ وَمَرْجِعُہٗ ہُوَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَأَيُّ فَضْلٍ یُّنْسَبُ إِلٰی فَضْلِہٖ أَدْنٰی نِسْبَۃٍ؟ أَوْ یَکُوْنُ لَہٗ بِجَنْبِہٖ أَقَلُّ اعْتِبَارٍ؟ فَإِنْ کَانَ ہٰذَا مُحَرَّمًا مَّنْہِیًّا عَنْہٗ، مَلْعُوْنًا فَاعِلُہٗ فِي قَبْرِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَمَا ظَنُّکَ بِقَبْرِ غَیْرِہٖ مِنْ أُمَّتِہٖ؟ وَکَیْفَ یَسْتَقِیْمُ أَنْ یَّکُوْنَ لِلْفَضْلِ مَدْخَلٌ فِي تَحْلِیْلِ الْمُحَرَّمَاتِ وَفِعْلِ الْمُنْکَرَاتِ؟ ’’علاوہ ازیں !صالحین کی قبروں پر قبے بنانے کا استثنا کیسے صحیح ہو سکتا ہے،جبکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بسندِ صحیح ہم ذکر کر چکے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:یہی وہ لوگ ہیں کہ جب ان میں سے کوئی نیک آدمی فوت ہو جاتا،تو اس کی قبر پر مسجد بنا لیتے۔پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی اس حرکت کے سبب ان پر لعنت بھی فرمائی ہے، لہٰذا کسی مسلمان کے لیے یہ کیسے جائز ہو سکتا ہے کہ وہ اس حرمت و ممانعت سے صالحین کی قبروں کو مستثنیٰ قرار دے؟جبکہ صورت حال یہ ہے کہ اہل کتاب، جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ملعون قرار دیااور ان کے اس فعل سے لوگوں کو ڈرایا،وہ صالحین کی قبروں ہی پر مسجدیں بناتے تھے۔پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو نوعِ انسانی کے سردار،با کمال صورت کے مالک،خاتم الرسل اور اللہ تعالیٰ کے برگزید بندے ہیں ، نے اپنی امت کو اپنے بعد اپنی قبر کو بھی مسجد،پوجا پاٹ اور