کتاب: تبرکات - صفحہ 300
وجہ سے شرک میں مبتلا ہوئے،جنہیں وہ ستاروں کی طلاسم وغیرہ خیال کرتے تھے۔ جب کسی آدمی کے بارے میں نیک ہونے کا عقیدہ ہو جائے،توایسے شخص کی قبر کے پاس شرک کا ہونایقینی طور پر لکڑی اور پتھروں کے پاس ہونے والے شرک سے زیادہ ممکن ہے۔اسی لیے اکثر مشرکوں کو ہم دیکھتے ہیں کہ وہ قبروں کے پاس خشوع و خضوع،عاجزی و انکساری اور دل سے ایسی عبادت کا مظاہرہ کرتے ہیں کہ جو اللہ کے گھروں اور بوقت سحری بھی نہیں کر پاتے،حتی کہ بعض لوگ تو ان قبروں کے پاس سجدے تک کر ڈالتے ہیں ۔ان میں سے اکثر وہاں نماز اور دعا کے ذریعے برکت کی امیدیں رکھتے ہیں ،حالانکہ مسجدوں سے یہ امیدیں نہیں لگاتے۔اس خرابی کی وجہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے شرک کو جڑ سے ختم کر دیا،یہاں تک کہ قبرستان میں مطلق طور پر نماز پڑھنے سے روک دیا،اسی طرح طلوعِ آفتاب اور غروبِ آفتاب کے وقت نماز سے بھی منع کر دیا گیا،کیونکہ اس وقت مشرکین سورج کی عبادت کرتے ہیں ،لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت اُمت کو نماز سے روک دیا،اگرچہ نمازی کا ارادہ مشرکین والا نہ بھی ہو۔اگر کسی انسان کا قبر کے پاس نماز پڑھنے کا مقصد تبرک حاصل کرنا ہو، تو یقینا یہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کو دھوکہ دینا اوران کے دین کی مخالفت کرنا ہے،نیز دین میں ایسے نئے کام کو گھڑ لینا ہے،جس کا اللہ تعالیٰ نے حکم نہیں دیا۔مسلمانوں کا اتفاق ہے کہ یہ بات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دین سے یقینی طور پر ثابت ہے کہ قبروں کے پاس نماز پڑھنا ممنوع ہے اور ان پرمسجدیں بنانے والا ملعون ہے۔قبروں کے پاس نماز پڑھنا اور ان پر مسجدیں بنانا شرک کے بڑے ذرائع و اسباب میں سے ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث ِمتواترہ میں