کتاب: تبرکات - صفحہ 30
جَعَلَ فِي عَرَقِہٖ بَرَکَۃً، وَفِي رِیقِہٖ وَفِي وَضُوئِہٖ وَفِي شَعْرِہٖ عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُ، وَلِہٰذَا وُزِّعَ شَعْرُہٗ بَیْنَ النَّاسِ فِي حَجَّۃِ الْوَدَاعِ، وَأَمَرَ الصَّحَابَۃَ أَنْ یَّأْخُذُوا مِنْ فَضْلِ وَضُوئِہٖ وَمِنْ عَرَقِہٖ عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُ، لِمَا جَعَلَ اللّٰہُ فِیہِ مِنَ الْبَرَکَۃِ، وَلَا یُقَاسُ عَلَیْہِ غَیْرُہٗ، وَلِہٰذَا لَمْ یَتَبَرَّکِ الصَّحَابَۃُ بِالصِّدِّیقِ، وَلَا بِعُمَرَ وَلَا بِعُثْمَانَ وَلَا بِعَلِيٍّ، وَہُمْ أَفْضَلُ النَّاسِ بَعْدَ الْـأَنْبِیَائِ، فَدَلَّ ذٰلِکَ عَلٰی أَنَّ ہٰذَا خَاصٌّ بِالنَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، أَمَّا مَا یَفْعَلُہٗ بَعْضُ النَّاسِ مِنَ التَّبَرُّکِ بِبَعْضِ الْعُلَمَائِ، أَوْ بِبَعْضِ الْعُبَّادِ، أَوْ بِبَعْضِ جُدُرَانِ الْکَعْبَۃِ، أَوْ بِکَسْوَۃِ الْکَعْبَۃِ؛ فَکُلُّ ہٰذَا لَا أَصْلَ لَہٗ، بَلْ یَجِبُ مَنْعُہٗ ۔ ’’ہمارے علم میں آثار سے تبرک کے بارے میں صرف وہی چیز ہے،جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم،پسینے اور بدن کو چھونے میں خاص برکت رکھی تھی۔اس سلسلے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ دیگر علما وغیرہ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر قیاس نہیں کیا جا سکتا۔بعض لوگ جو کچھ بزرگ ہستیوں کے آثار سے تبرک لیتے ہیں ،وہ غلط کام ہے، جس کی کوئی وجہِ جواز نہیں ،نہ اس پر کوئی دلیل ہے۔ایسا کرنا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص ہے،کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بال،لعاب،وضو کے پانی اور بالوں میں برکت رکھی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ حجۃ الوداع کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بال مبارک لوگوں میں تقسیم کیے گئے،نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو حکم فرمایا کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے