کتاب: تبرکات - صفحہ 294
’’ہم ابو فتح قواس سے برکت حاصل کیا کرتے تھے،حالانکہ ابھی وہ بچے تھے۔‘‘
(تاریخ بغداد للخطیب : 14/325، وسندہٗ صحیحٌ)
اس سے مراد ان سے دعا کی برکت حاصل کرنا ہے اور زندہ نیک شخص سے دعا کروائی جا سکتی ہے،اس سے کسی کوئی اختلاف نہیں ۔
دلیل نمبر 17 :
امام ابن ابی عاصم رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
قَدْ رَأَیْتُ جَمَاعَۃً مِّنْ أَہْلِ الْعِلْمِ وَأَہْلِ الْفَضْلِ، إِذَا ہَمَّ أَحَدَہُمْ أَمْرٌ؛ قَصَدَ إِلٰی قَبْرِہٖ، فَسَلَّمَ عَلَیْہِ، وَدَعَا بِحَضْرَتِہٖ، وَکَانَ یَعْرِفُ الْإِجَابَۃَ، وَأَخْبَرَنَا مَشَایِخُنَا قَدِیمًا أَنَّہُمْ رَأَوْا مَنْ کَانَ قَبْلَہُمْ یَفْعَلُہٗ ۔
’’میں نے اہل علم و فضل کی ایک جماعت کو دیکھا کہ جب انہیں کسی پریشانی کا سامنا ہوتا، تو وہ ان(سیدنا طلحہ بن عبیداللہ)کی قبر پر جاکر سلام کرتے،اس جگہ دُعا مانگتے۔ وہ قبولیت دعا کو محسوس کرتے تھے۔ہمارے مشایخ نے یہ خبر دی کہ انہوں نے بھی اپنے سے پہلے لوگوں کو ایسے کرتے دیکھاہے۔‘‘
(الآحاد والمَثاني : 1/163)
یہ نا معلوم لوگوں کا عمل ہے، جسے دین نہیں بنایا جا سکتا۔جب صحابہ کرام اور تابعین عظام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر پر ایسا نہیں کرتے تھے،تو کسی اور کی قبر پر کیسے روا ہو گیا؟
الحاصل :
اولیا و صالحین کی قبروں سے تبرک حاصل کرنا ممنوع اور بدعت ہے، خیرالقرون میں قبروں سے تبرک حاصل کرنے کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ یہ بعد والوں کی ایجاد ہے اور بعد