کتاب: تبرکات - صفحہ 293
اے فلاں !ہم نے تمہیں اپنے حبیب کی قبر کی زیارت کی اجازت دی ہے، تو ہم نے اسے قبول بھی کر لیا ہے،تم اور تمہارے ساتھی پلٹ جاؤ، تمہاری بخشش کر دی گئی ہے۔‘‘ (المَواہِب اللّدنیّۃ لأحمد القَسطلاني : 3/597)
اس کی سند نہیں مل سکی۔ بے سند باتوں کا کوئی اعتبار نہیں ۔
دلیل نمبر 15 :
امام حاکم رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں :
سَمِعْتُ أَبَا عَلِيٍّ النَّیْسَابُوْرِيَّ یَقُوْلُ : کُنْتُ فِي غَمٍّ شَدِیْدٍ، فَرَأَیْتُ النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِي الْمَنَامِ، کَأَنَّہٗ یَقُوْلُ لِي : صِرْ إِلٰی قَبْرِ یَحْیَی بْنِ یَحْیٰی، وَاسْتَغْفِرْ، وَسَلْ؛ تُقْضَ حَاجَتُکَ، فَأَصْبَحْتُ، فَفَعَلْتُ ذٰلِکَ، فَقُضِیَتْ حَاجَتِیْ ۔
’’میں نے سنا کہ ابو علی نیسابوری کہہ رہے تھے:میں سخت پریشانی سے دوچار تھا۔ میں نے خواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کی۔ایسامحسوس ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے فرما رہے تھے : یحییٰ بن یحییٰ کی قبر کی طرف جاؤ، وہاں استغفار کرو اور دُعا کرو، تمہاری ضرورت پوری ہو جائے گی۔میں نے اگلے دن یہ کام کیا،تو میری پریشانی حل ہو گئی۔‘‘
(تاریخ الإسلام للذّہبي : 5/729، تہذیب التّہذیب لابن حَجَر : 11/299)
یہ خواب کا واقعہ ہے،سوائے انبیا کے کسی کا خواب قابل اعتبار نہیں ہو سکتا۔
دلیل نمبر 16 :
امام دارقطنی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
کُنَّا نَتَبَرَّکُ بِأَبِي الْفَتْحِ الْقوَّاسِ، وَہُوَ صَبِيٌّ ۔