کتاب: تبرکات - صفحہ 292
اور گریہ و زاری ہوتا ہے۔اس بات میں کوئی شک نہیں کہ مبارک مقامات، مسجد، سحری اور دیگر اوقات میں دعا کرنے والے کو بہت کچھ حاصل ہو جاتا ہے اور ہر پریشان حال کی دُعا قبول ہوجاتی ہے۔‘‘ (سِیَر أعلام النُّبَلاء : 17/77)
دعا کی قبولیت کا سبب انبیا اور صلحا کی قبریں نہیں ، بلکہ وہ خشوع وخضوع ہے، جو دعا کرنے والا اختیار کرتا ہے۔
اگر اولیا کی قبروں پر دعا قبول ہوتی، صحابہ، تابعین، تبع تابعین اور خیر القرون کے مسلمان ایسا ضرور کرتے، اگر وہ قبر نبی پر دُعا نہیں مانگتے تھے، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ قبورِ انبیا و اولیا پر دعا کے قبول ہونے پر کوئی دلیل شرعی نہیں ۔ عقائد و اعمال میں سلف صالحین پر اکتفا کرنا چاہیے، باقی جن اہل علم نے یہ لکھا ہے کہ فلاں کی قبر سے تبرک وتوسل حاصل کیا جاتا ہے، تو یہ عام گمراہ یا جاہل عوام کی عادت کا ذکر ہے، جس پر کوئی دلیل نہیں ، اگر بعض متأخرین اہل علم کا ایسا نظریہ ہو بھی … تو یہ حجت نہیں ، کیونکہ یہ خیر القرون کے سلف صالحین کے مخالف ہے۔
دلیل نمبر 14 :
حسن بصری رحمہ اللہ کہتے ہیں :
وَقَفَ حَاتِمُ الْـأَصَمُّ عَلٰی قَبْرِ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ : یَا رَبِّ، إِنَّا زُرْنَا قَبْرَ نَبِیِّکَ، فَلَا تَرُدَّنَا خَائِبِیْنَ، فَنُوْدِيَ : یَا ہٰذَا، مَا أَذِنَّا لَکَ فِي زِیَارَۃِ قَبْرِ حَبِیْبِنَا؛ إِلَّا وَقَدْ قَبِلْنَاکَ، فَارْجِعْ أَنْتَ وَمَنْ مَّعَکَ مِنَ الزُّوَارِ مَغْفُوْرًا لَّکُمْ ۔
’’حاتم اصم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک پر کھڑے ہو کر کہا:اے رب!ہم تیرے نبی کی قبر کی زیارت کے لیے آئے ہیں ،ہمیں نا مراد نہ لوٹانا۔آواز آئی: