کتاب: تبرکات - صفحہ 291
دلیل نمبر 13 : حافظ ابن عبد البر رحمہ اللہ کہتے ہیں : قَبْرُ أَبِي أَیُّوْبَ قُرْبَ سُوْرِہَا، مَعْلُوْمٌ إِلَی الْیَوْمِ، مُعَظَّمٌ یَّسْتَسْقُوْنَ بِہٖ، فَیُسْقَوْنَ ۔ ’’سیدنا ابو ایوب رضی اللہ عنہ کی قبر(قسطنطنیہ)شہر کی فصیل کے قریب ہے۔آج تک وہیں موجود ہے۔ اس کی تعظیم کی جاتی ہے اور اس کے وسیلہ سے بارش طلب کی جائے، تو بارش برستی ہے۔‘‘ (الاستیعاب في معرفۃ الأصحاب : 2/426) اس پر کوئی دلیل نہیں کہ بارش کی دُعا اس قبر کی برکت سے قبول ہوتی ہے۔ اتفاقاً ایسا ہو جاتا ہے، اس سے یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ قبر کی وجہ سے یا صاحب قبر کے سبب دُعا قبول ہوتی ہے۔ اگر ایسا ہوتا، تو صحابہ کرام،تابعین اور تبع تابعین کو ضرور معلوم ہوتا اور وہ ضرور اس کے قائل وفاعل ہوتے۔ تنبیہ : ٭ حافظ ذہبی رحمہ اللہ کہتے ہیں : اَلدُّعَائُ مُسْتَجَابٌ عِنْد قُبُوْرِ الْـأَنْبِیَائِ وَالْـأَوْلِیَائِ، وَفِي سَائِرِ الْبِقَاعِ، لٰکِنْ سَبَبُ الْإِجَابَۃِ حُضُورُ الدَّاعِي، وَخُشُوعُہٗ، وَابْتِہَالُہٗ، وَبِلاَ رَیْبٍ فِي الْبُقْعَۃِ الْمُبَارَکَۃِ، وَفِي الْمَسْجَدِ، وَفِي السَّحَرِ، وَنَحْوِ ذٰلِکَ، یَتَحَصَّلُ ذٰلِکَ لِلدَّاعِي کَثِیْراً، وَکُلُّ مُضْطَرٍّ؛ فَدُعَاؤُہٗ مُجَابٌ ۔ ’’انبیا، اولیاکی قبروں اور باقی تمام مقدس مقامات پر دُعا قبول ہوجاتی ہے،لیکن قبولیت ِدُعا کا سبب(قبور کا متبرک ہونا نہیں ،بلکہ)دعا کرنے والے کا خشوع