کتاب: تبرکات - صفحہ 290
قرآن و سنت میں بزرگوں کی قبروں پر دُعا اور ان کے توسل اور تبرک کا کوئی جواز نہیں ، اگر ایسا کرنا جائز ہوتا، توصحابہ کرام اور تابعین عظام ضرور ایسا کرتے۔ خیر القرون کے بعد دین اسلام میں جو منکر کام داخل ہو گئے تھے، یہ بھی انہی میں سے ہے۔
دلیل نمبر 11 :
امام مجاہد رحمہ اللہ سے سیدنا ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے بارے میں منقول ہے :
کَانُوْا إِذَا قُحِطُوْا کَشَفُوْا عَنْ قَبْرِہٖ، فَمُطِرُوْا ۔
’’رومی جب قحط سالی کا شکار ہوتے، تو وہ سیدنا ابو ایوب رضی اللہ عنہ کی قبر کو کھولتے۔ تو ان پر بارش برسا دی جاتی۔‘‘
(مُعجم الصّحابۃ للبَغوي : 2/222)
جھوٹی روایت ہے۔
1. محمد بن عمر واقدی ’’متروک وکذاب‘‘ ہے۔
2. اسحاق بن یحییٰ بن طلحہ ’’ضعیف‘‘ہے۔
(تقریب التّہذیب لابن حَجَر : 390)
دلیل نمبر 12 :
امام مالک رحمہ اللہ سے منقول ہے :
بَلَغَنِي عَنْ قَبْرِ أَبِي أَیُّوْبَ أَنَّ الرُّوْمَ یَسْتَصْحُوْنَ بِہٖ، وَیَسْتَسْقَوْنَ ۔
’’مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ رومی سیدنا ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کی قبر کے وسیلے صحت اور بارش طلب کرتے ہیں ۔‘‘
(الاستیعاب في معرفۃ الأصحاب لابن عبد البرّ : 4/1606)
امام مالک رحمہ اللہ نے صرف ایک خبر بیان کی ہے،اس کی تصدیق نہیں کی۔ان تک یہ بات پہنچانے والا شخص نا معلوم ہے،لہٰذا یہ قول حجت نہیں ۔