کتاب: تبرکات - صفحہ 29
کے پانی سے تبرک نہیں لیا،نہ سیدنا عمر، سیدنا عثمان اور سیدنا علی رضی اللہ عنہم اور دوسرے صحابہ کرام کے ساتھ ایسا معاملہ کیا،کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ یہ تبرک نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص ہے اور اس سلسلے میں کسی کو بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر قیاس نہیں کیا جا سکتا۔حالانکہ اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام کے بارے میں فرمایا : ﴿وَالسَّابِقُوْنَ الْأَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُھَاجِرِیْنَ وَالْاَنْصَارِ وَالَّذِیْنَ اتَّبَعُوھُمْ بِاِحْسَانٍ رَّضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ وَرَضُوْا عَنْہُ وَاَعَدَّ لَھُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِی تَحْتَھَا الْاَنْھَارُ خَالِدِیْنَ فِیْھَا اَبَدًا ذٰلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ﴾(التّوبۃ : 100) (جن لوگوں نے سبقت کی (یعنی سب سے)پہلے (ایمان لائے) مہاجرین میں سے بھی اور انصار میں سے بھی اور جنہوں نے نیکی کے ساتھ اُن کی پیروی کی،اللہ اُن سے خوش ہو گیا اور وہ اللہ سے خوش ہو گئے اور اللہ نے ان کیلئے باغات تیار کئے ہیں جن کے نیچے سے نہریں بہہ رہی ہیں ،وہ ہمیشہ ان میں رہیں گے۔یہی بڑی کامیابی ہے)۔‘‘ (مَجموع فتاوی ابن باز : 9/121) ٭ نیز فرماتے ہیں : لَا نَعْلَمُ شَیْئًا فِي ہٰذَا إِلَّا مَا ثَبَتَ عَنْہُ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّ اللّٰہَ جَعَلَ فِي جِسْمِہٖ وَعَرَقِہٖ وَمَسِّ جَسَدِہٖ بَرَکَۃً خَاصَّۃً بِہٖ عَلَیْہِ الصَّلاَۃُ وَالسَّلَامُ، وَلَا یُقَاسُ عَلَیْہِ غَیْرُہٗ مِنَ الْعُلَمَائِ وَغَیْرِہِمْ، وَمَا یَفْعَلُہٗ بَعْضُ النَّاسِ مِنَ التَّبَرُّکِ بِبَعْضِ النَّاسِ؛ فَہُوَ غَلَطٌ لَّا وَجْہَ لَہٗ، وَلَیْسَ عَلَیْہِ دَلِیلٌ، إِنَّمَا ہٰذَا خَاصٌّ بِالنَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، لِأَنَّ اللّٰہَ