کتاب: تبرکات - صفحہ 286
دے۔ امام صاحب کی قبر خرتنک نامی جگہ میں ہے۔قاضی اور تمام لوگ باہر نکلے اور امام صاحب کی قبر کے پاس جا کر بارش کی دُعا کی،اللہ کے ہاں گڑگڑائے اور امام صاحب کا وسیلہ پیش کیا۔اللہ تعالیٰ نے بہت زیادہ بارش نازل کی۔اس بارش کی وجہ سے لوگوں کو خرتنک میں تقریباً سات دن ٹھہرنا پڑا۔ زیادہ بارش کی بنا پر کوئی بھی سمرقند نہ جا سکتا تھا۔ خرتنک اور سمرقند کے درمیان تقریباً تین میل کا فاصلہ تھا۔‘‘ (الصِّلۃ في تاریخ أئمّۃ الأندلس لابن بشکوال، ص 603، وسندہٗ صحیحٌ) پانچویں صدی کے اواخر کے بعض نامعلوم لوگوں کا یہ عمل دین کیسے بن گیا؟ ایک شخص کے کہنے پر نامعلوم قاضی اور اس کی نامعلوم رعایا کا یہ عمل قرآن وسنت اور سلف صالحین کے تعامل کے خلاف تھا۔ رہا بارش کا ہو جانا، تو وہ ایک اتفاقی امر ہے۔ آج بھی کتنے ہی لوگ قبر والوں سے اولادیں مانگتے ہیں ، اللہ تعالیٰ کی طرف سے انہیں اولاد ملتی ہے، تو وہ سمجھ بیٹھتے ہیں کہ صاحب قبر نے ان پر یہ عنایت کی ہے۔ کیا بتوں کے پجاریوں اور ان سے مانگنے والوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی چیز نہیں ملتی؟ اور کیا ان کی کوئی مراد پوری ہو جانا بت پرستی کے جواز کی دلیل ہے؟ قرآن وحدیث میں بزرگوں کی قبروں پر دُعا اور ان سے تبرک حاصل کرنے کا کوئی جواز نہیں ۔ اگر ایسا کرنا جائز ہوتا، تو صحابہ وتابعین ضرور ایسا کرتے۔ خیر القرون کے بعد دین میں منکر کام داخل ہو گئے تھے، یہ بھی انہی کاموں میں سے ہے۔ اس دور میں کسی کے عمل کی کوئی شرعی حیثیت نہیں ۔