کتاب: تبرکات - صفحہ 28
سُقْمٍ‘، وَالْوَاجِبُ عَلَی الْمُسْلِمِینَ الِاتِّبَاعُ وَالتَّقَیُّدُ بِالشَّرْعِ، وَالْحَذِرُ مِنَ الْبِدَعِ الْقَوْلِیَّۃِ وَالْعَمَلِیَّۃِ، وَلِہٰذَا لَمْ یَتَبَرَّکِ الصَّحَابَۃُ رَضِيَ اللّٰہُ عَنْہُمْ بِشَعْرِ الصِّدِّیقُ رَضِيَ اللّٰہُ عَنْہُ، أَوْ عَرَقِہٖ أَوْ وَضُوئِہٖ، وَلاَ بِشَعْرِ عُمَرَ أَوْ عُثْمَانَ أَوْ عَلِيٍّ أَوْ عَرَقِہِمْ أَوْ وَضُوئِہِمْ، وَلاَ بِعَرَقِ غَیْرِہِمْ مِّنَ الصَّحَابَۃِ وَشَعْرِہٖ وَوَضُوئِہٖ، لِعِلْمِہِمْ بِأَنَّ ہٰذَا أَمْرٌ خَاصٌّ بِالنَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَلَا یُقَاسُ عَلَیْہِ غَیْرُہٗ فِي ذٰلِکَ، وَقَدْ قَالَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ : ﴿وَالسَّابِقُوْنَ الْأَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُھَاجِرِیْنَ وَالْاَنْصَارِ وَالَّذِیْنَ اتَّبَعُوھُمْ بِاِحْسَانٍ رَّضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ وَرَضُوْا عَنْہُ وَاَعَدَّ لَھُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِی تَحْتَھَا الْاَنْھَارُ خَالِدِیْنَ فِیْھَا اَبَدًا ذٰلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ﴾(التّوبۃ : 100) ’’رسول اللہ رضی اللہ عنہ کے بالوں ،پسینے اور وضو کے پانی سے تبرک لینے میں کوئی حرج نہیں ، جیسا کہ بیان ہو چکا ہے،کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کے اس عمل پر رضامندی ظاہر فرمائی اور اس میں برکت موجود ہے،جو کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتی ہے۔ اسی طرح وہ برکت جو آبِ زمزم میں اللہ تعالیٰ نے رکھی ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بارے میں فرمایا : یہ بابرکت پانی ہے، بھوک کے لیے کھانا اور بیماری کے لیے شفا ہے۔مسلمانوں پر ضروری ہے کہ وہ شریعت کی پیروی و پابندی کریں اور قولی و عملی بدعات سے اجتناب کریں ۔یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بالوں ،پسینے اور وضو