کتاب: تبرکات - صفحہ 277
مُسْتَحَبٌّ أَنْ یَقْصِدَ الْقُبُورَ لِأَجْلِ الدُّعَائِ عِنْدَہَا؛ لَا قُبُورَ الْـأَنْبِیَائِ وَلَا غَیْرِہِمْ ۔ ’’قبروں کے پاس دُعا مساجد اور دیگر مقامات کی بہ نسبت افضل نہیں ہے، اسلافِ اُمت اور ائمہ دین میں سے کسی نے بھی نہیں کہا کہ دُعا کیلئے أنبیاء اور دیگر قبروں کا قصد مستحب ہے۔‘‘ (مَجموع الفتاویٰ : 27/180) یہ کہنا کہ اولیا اور صالحین کی قبروں سے وسیلہ پکڑنا جائز ہے، وہاں دعائیں قبول ہوتی ہیں ، درست نہیں ،سیدناانس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : إِنَّ عُمَرَ بْنَ الخَطَّابِ رَضِيَ اللّٰہُ عَنْہُ، کَانَ إِذَا قُحِطُوا اسْتَسْقٰی بِالعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ المُطَّلِبِ، فَقَالَ : اللّٰہُمَّ! إِنَّا کُنَّا نَتَوَسَّلُ إِلَیْکَ بِنَبِیِّنَا فَتَسْقِینَا، وَإِنَّا نَتَوَسَّلُ إِلَیْکَ بِعَمِّ نَبِیِّنَا فَاسْقِنَا، قَالَ : فَیُسْقَوْنَ ۔ ’’سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا طریقہ تھا کہ قحط پڑ جاتا، تو سیدنا عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ (کی دعا )کے وسیلہ سے بارش طلب کرتے تھے ۔ دعا یوں کرتے : یااللہ!ہم تجھے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم (کی زندگی میں ان کی دعا )کا وسیلہ پیش کر کے بارش طلب کیا کرتے تھے، تو تُوہمیں بارش دیتا تھا اور اب ہم اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم (کی وفات کے بعدان )کے چچا (کی دعا)کو وسیلہ بناکر بارش طلب کرتے ہیں (یعنی ان سے دعا کرواتے ہیں )،لہٰذا اب بھی ہم پر بارش نازل فرما۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اس طرح انہیں بارش عطا ہوجاتی تھی۔‘‘ (صحیح البخاري : 1010)