کتاب: تبرکات - صفحہ 276
وَدَعَوْتُ اللّٰہَ إِزَالَتَہَا عَنِّي إِلَّا أُسْتُجِیْبَ لِي وَزَالَتْ عَنِّي تِلْکَ الشَّدَّۃُ وَہٰذَا شَيْئٌ جَرَّبْتُہٗ مِرَارًا فَوَجَدْتُّہٗ کَذٰلِکَ أَمَاتَنَا اللّٰہُ عَلٰی مَحَبَّۃِ الْمُصْطَفٰی وَأَہْلِ بَیْتِہٖ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اللّٰہ عَلَیْہِ وَعَلَیْہِم أَجْمَعِینَ ۔ ’’طوس نامی مقام پرمیں نے علی بن موسیٰ رضا کی قبر کی کئی مرتبہ زیارت کی، جب بھی مجھے پریشانی کا سامنا ہوا، تو میں نے علی بن موسیٰ رضا کی قبر پر آ کراللہ تعالیٰ سے دُعا کی، اللہ رب العزت نے میری دُعا قبول فرما کر مجھے سخت پریشانی سے نجات دلائی،اس کا میں نے کئی مرتبہ تجربہ کیا ہے، اللہ تعالیٰ ہمیں سیدنا محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے تمام اہل بیت سے محبت پر موت دے۔‘‘ (الثّقات : 8/457، ت : 1441) یہ ابن حبان رحمہ اللہ کی اجتہادی خطا ہے،اس میں ان کا کوئی سلف نہیں ، نہ ہی کتاب و سنت سے مستند ہے، بلکہ خیرالقرون کے مسلمانوں کے خلاف عمل ہے۔ خوب یاد رہے کہ ہر ایک کی بات کو قرآن و حدیث اور خیر القرون کے اسلاف پر پیش کیا جائے گا، اگر موافق ہو، تو قبول، ورنہ رد کر دی جائے گی، یہ بھی ذہن نشین رہے کہ اگر ائمہ اہل سنت میں سے کسی کی بات قرآن و حدیث اور سلف صالحین کے مخالف ہو، تو وہ اس کی اجتہادی خطا ہے۔ ٭ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (728ھ)فرماتے ہیں : لَیْسَ الدُّعَائُ عِنْدَ الْقُبُورِ بِأَفْضَلَ مِنْ الدُّعَائِ فِي الْمَسَاجِدِ وَغَیْرِہَا مِنْ الْـأَمَاکِنِ وَلَا قَالَ أَحَدٌ مِنْ السَّلَفِ وَالْـأَئِمَّۃِ : إنَّہٗ